بطور اٹارنی جنرل منصور خان اپنے پیچھے کون سی روایت چھوڑ گئے؟
جب پاکستان کی کسی اعلیٰ عدالت کے جج کو اپنے منصب کے لیے ذہنی یا جسمانی طور پر نااہل تصور کیا جاتا ہے یا پھر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اسے عہدے سے ہٹانے کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے پاس ہوتا ہے۔
اس حوالے سے 2 طریقے وضح کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کونسل میں یا تو روایتی انداز میں شکایت درج کروائی جائے یا پھر صدارتی ریفرنس دائر کیا جائے۔ صدارتی ریفرنس کی صورت میں کونسل اس کی سماعت اور جج سے وضاحت طلب کرنے کی پابند ہوتی ہے، کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صدر (یعنی وفاقی حکومت) نے خود کو موصول ہونے والی معلومات پر غور و فکر کیا اور قابلِ تفتیش سمجھا۔
وزارتِ قانون نے حکومت کے ادارے ایسِٹس ریکووری یونٹ کی شکایت پر ضابطہ اخلاق کی مبیّنہ خلاف ورزی کرنے پر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے چند اثاثے یعنی وہ جائیداد جو ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر ہے اسے ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنی یا ان پر منحصر قریبی افراد کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کی مطلوبہ تفصیل فراہم نہیں کرکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
جسٹس عیسیٰ نے قانونی طریقہ کار کے مطابق ریفرنس میں اپنا جواب جمع تو کروایا لیکن ساتھ ہی ساتھ صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کے لیے آئینی پٹیشن بھی دائر کی۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ یہ صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، ٹیکسیشن حکام نے اس سے پہلے جائیداد کے مالکان پر کسی قسم کے الزامات عائد کیوں نہیں کیے جبکہ غیر قانونی نگرانی کے ذریعے مبیّنہ اثاثوں کے حوالے سے اپنی مرضی کی معلومات اکٹھا کی گئی ہیں۔ چنانچہ بدنیتی کی بنیاد پر عہدے سے ہٹانے کا عمل شروع کیا گیا ہے جسے روکنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اسی صورت میں اپنے خاندان کے کسی فرد کی دولت ظاہر کرنے پابند تھے جب وہ ان پر منحصر ہوتا، اور یہ کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیرِ کفالت نہیں تھے اور ان کے پاس آمدن کے اپنے ذرائع تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان جائیدادوں کا صرف غیر قانونی جاسوسی کے ذریعے ہی پتا لگایا جاسکتا ہے۔
تفصیلی سماعتوں کے دوران یہ شک بھی ظاہر کیا گیا کہ جج اور چند طاقتور اداروں کے درمیان خلش کے باعث بدنیتی کی بنیاد پر کابینہ کے چند ارکان کی مدد سے ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ انہیں چپ کروانے اور ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رکھنے کی ہمت کرنے کی سزا کے طور پر یہ ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ریفرنس کافی ناپختہ ہے کیونکہ ابتدائی طور پر ٹیکس کمشنر کو مبیّنہ تضاد پر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں سے بذریعہ نوٹس جواب طلب کرنا چاہیے تھا۔ اس عمل سے کچھ ثابت ہونے کے بعد ہی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا دعوٰی دائر کیا جاسکتا تھا۔
میڈیا میں رپورٹ ہونے والے بینچ کے ریمارکس ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں۔ چند سوالوں میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ آیا اس قسم کے کینہ پرور الزامات اگر ٹھیک بھی ہوں تو کیا کونسل میں چل رہی قانونی کارروائی خارج کردینی چاہیے؟
اطلاعات کے مطابق چند معزز ارکان نے سماعت کے دوران کہا کہ اس قسم کی کارروائی سے ججوں کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے پر پہلے سے کمزور معاملہ مزید کمزور ہوگا اور اگر الزامات بے بنیاد ہیں تو بھی کونسل کے آگے یہ ثابت ہوجائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق دیگر نے ٹیکس سے جڑے الزمات سے متعلق مطلوبہ قانونی تقاضوں کی کمی اور اے آر یو کی کسی قسم کی ادارتی اختیار کی غیر موجودگی پر بات کی۔
خود کورٹ رپورٹرز بھی ان معاملات پر منقسم بنچ پر ایک دوسرے سے سوال جواب کرتے رہے۔ چند سینئر وکلا کی رائے میں بظاہر طور پر نظر آنے والی یہ تقسیم گزشتہ ہفتے اس وقت ختم ہوگئی جب حکومت نے جواب جمع کروایا۔
حال ہی میں اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے انور منصور خان نے وہ پتّہ کھیلا جسے انہوں نے ترپ کا پتّہ سمجھا تھا۔ انہوں نے غالباً اختلافِ رائے کو مزید بڑھانے کے لیے بنچ پر اس انداز میں الزامات عائد کیے کہ میڈیا کو اس کی رپورٹنگ نہ کرنے کو کہا گیا۔ جس پر انہیں شواہد جمع کرانے یا بصورتِ دیگر معافی مانگنے کے لیے کہا گیا۔
بار کونسل نے ان کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ بعدازاں اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جب دباؤ کی شدت برقرار رہی تو انہوں نے اپنا استعفیٰ جمع کروا دیا۔ وزارتِ قانون نے شاید اس معاملے سے خود کو دُور رکھنے کی غرض سے یہ واضح کیا کہ انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ انفرادی حیثیت میں یہ الزامات لگانے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
اس وضاحت پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ اداروں سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر ہی یہ کام کیا اور جب معلومات موصول ہوتی ہے تو انہیں اس پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے حکومت کے اس الزام کو بھی مسترد کیا کہ انہوں نے انفرادی حیثیت میں یہ کام کیا ہے۔ انور منصور خان کا کہنا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ میں کون سے بیانات دینے جا رہا ہوں، ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران انہوں نے یہاں تک کہا کہ ان بیانات پر ان کی ستائش بھی کی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل کے مؤقف کا اندازہ مندرجہ ذیل مثال سے لگایا جاسکتا ہے۔
’میں نے سوپ اس لیے پکایا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تمام اجزا دستیاب ہوں تو سوپ ضرور بنانا چاہیے۔ ہر ایک نے سوپ پکانے میں مدد کی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں اس سوپ کو پکانے پر معذرت خواہ ہوں، میں نے تو اس سوپ کو پکانے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھائیوں اس سوپ پر آپ کے غم و غصے میں، میں بھی شریک ہوں۔ یہ ایک سخت ناگوار تجربہ ہے۔‘
یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے لیے اٹارنی جنرل نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران جو چند اہم کام کیے وہ حادثاتی طور پر ہی ہوئے۔ کیونکہ آرمی ایکٹ کے مقدمے کے دوران انہوں نے قانون کی خامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے مناسب قانون سازی کے عمل کی یقین دہانی کروائی تھی۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے نوٹیفیکشن کو محفوظ رکھنے کے لیے عدالت نے انہی کی یقین دہانی پر انحصار کیا تھا۔ اب نظرثانی کے موقعے پر وفاقی حکومت یہ دعوٰی کرتی ہے کہ ان کے پاس ایسی یقین دہانیاں کروانے کا اختیار ہی نہیں ہے۔
دوسرا حادثہ اس وقت پیش آیا جب انہوں نے عدالت اور میڈیا کو 2 مختلف ردِعمل دیے۔ انہوں نے بقول بار کونسلز کسی واضح قانونی اجازت کے بغیر ریاستی منصوبوں کے ذریعے آزاد عدلیہ کی تلاش کی قیادت کی۔ جب بازی پلٹ گئی تو انہوں نے ہماری آزادیوں کی محرومی پر احتجاج کرنے کے لیے بار کونسلز کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی کوشش کی اور ریاست کے تازہ شکار کے طور پر بار کے برادر ممبران کے پاس پہنچ گئے۔
ان کے اس دعوے کہ ’انہوں نے متعلقہ اداروں سے حاصل ہونے والی معلومات کے تحت کام کیا؟‘ نے عوام کی نظروں سے اوجھل کسی کنڈکٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان کی آزادی کو باعث تشویش بنادیا۔ یہ معلومات آخر حاصل کیسے کی گئیں؟ اس بات سے قطع نظر کہ یہ معلومات درست ہے یا غلط، کیا اٹارنی جنرل نے جسٹس عیسیٰ کی جانب سے غیر قانونی نگرانی سے متعلق لگائے جانے والے الزامات کو تسلیم نہیں کرلیا؟
انہوں نے حکومت کی جانب سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی قلعی کھول دی ہے کہ جسٹس عیسیٰ ریفرنس ہر طرح سے شفاف ہے اور قانون کے آگے سب برابر ہیں۔
2 واضح طور پر جلدبازی میں دیے گئے بیانات سے انہوں نے دکھاوی انصاف کے عمل کی حقیقت بتادی ہے۔ بطور سابق اٹارنی جنرل منصور خان اپنے پیچھے کون سی روایت چھوڑ گئے ہیں اس کا دار و مدار آپ کی سوچ پر ہے کہ آیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ سب بامقصد طور پر کیا تھا یا نہیں۔
یہ مضمون 29 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔