• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

قومی اسمبلی: عمر ایوب کے بیان پر اراکین پیپلزپارٹی کی ہنگامہ آرائی

شائع February 12, 2020
ہنگامہ آرائی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
ہنگامہ آرائی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے بیان پر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

عمر ایوب نے کہا تھا کہ کرپشن پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ‘ جینیٹک میک اپ‘ میں ہے۔

قومی اسمبلی میں تنقید سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے وزیر توانائی نے ماضی کی حکومتوں کارروائی کو دہراتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔

انہوں نے بظاہر سابق صدر آصف زرداری کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تقریر میں ’ مسٹر 10 پرسنٹ‘ کا لفظ بھی استعمال کیا۔

جس پر پیپلزپارٹی نے ان کے بیانات پر احتجاج کیا اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری سے کہا کہ وہ عمر ایوب کو ایسے بیانات سے روکیں۔

تاہم وفاقی وزیر نے اپوزیشن کے خلاف تقریر جاری رکھی جس پر آغا رفیع اللہ کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی نے عمر ایوب کا گھیراؤ کیا جس کے بعد حکومتی اراکین نے ہنگامہ آرائی روکنے کی کوشش کی۔

اس دوران جب عمر ایوب اور آغا رفیع اللہ کی تکرار کے دوران وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری سمیت حکومتی اراکین پی پی پی اراکین کو روکنے کے لیے آگے آئے تھے۔

صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ممکن ہے ہم بھی ناکام ہو جائیں، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ

قبل ازیں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے یہ اس ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ 72 سال میں اس ملک کا ایک بھی وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہیں کرسکا اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سب سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر رہے۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

مشیرِ خزانہ نے کہا کہ جب ہم استحکام کی بات کرتے ہیں تو کچھ چیزوں کو نظر میں بھی رکھنا چاہیے، میری کوشش ہوگی کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں کیونکہ جو بھی ہماری معیشت میں ہورہا ہے اس کے اثرات براہ راست لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ایسا کوئی ملک نہیں ہوسکتا کہ لوگ ترقی پذیر ہوں اور ممالک ترقی یافتہ ہوں، ایسا کوئی ملک نہیں کہ لوگ پڑھے لکھے نہ ہو، ان کے پاس ہنر نہ ہو اور انہیں نظر انداز کیا جائے اور ملک ترقی کر رہا ہو، اگر ہم نے آگے جانا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو ہم اپنے لوگوں پر دھیان دیں۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر کی وزیراعظم عمران خان کو معیشت پر بریفنگ

انہوں نے کہا کہ حقائق میں تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان 72 برس میں کامیاب نہیں ہوسکا، اپنی چیزیں دوسرے ممالک کو بیچنے میں یا دوسرے ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے قائل کرنے کی کوششیں کرتا رہا تو جن ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں جنہوں نے ہمارے سامنے ترقی کی، چاہے وہ چین ہو، تھائی لینڈ، ملائیشیا یا کوریا ان سب نے پوری دنیا کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ ڈھونڈا کہ وہ اپنی چیزیں وہاں بیچ سکیں اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ دوسرے ممالک وہاں سرمایہ کاری کرسکیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ 72 سال میں پاکستان ٹیکس وصولی میں اچھے سے کامیاب نہیں ہوسکا اور ہم ہمیشہ خود دار ملک ہوتے ہوئے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے رہے۔

’ماضی میں ترقی کی رفتار پائیدار ثابت نہیں ہوسکی‘

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس ملک میں ایسے دور آئے کہ ترقی کی رفتار میں تیزی آئی لیکن یہ رفتار 3 سے 4 برس تک مسلسل نہیں چل سکی، 60 کی دہائی، 80 کی دہائی اور 2000 کے عشرے میں آئی تو وہ پائیدار ثابت نہیں ہوسکی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سوچنا ہے کہ گروتھ ریٹ حاصل تو کرسکتی ہے لیکن یہ مسلسل جاری کیوں نہیں رہ سکتی اگر ہم ان سوالوں کے جواب نہیں دے پائیں گے تو معیشت میں وہ پائیدار ترقی نہیں ہوگی جس سے ہم اپنے لوگوں کی زندگی بدل سکیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ کون زیادہ اچھی تقریر کرتا ہے اور اپنے ہی لوگوں سے تالیاں بجواتا ہے، اصل چیز یہ ہے کہ ہم ان چیزوں پر ایک ساتھ ہوکر چلیں جو اس ملک کے فائدے کے لیے ہیں۔

’بحران یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جو بحران ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں اور ہم نے قرضے بھی ڈالرز ہی میں لیے ہیں اور ہم ڈالرز ختم کرتے چلے جارہے ہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 5 برس میں برآمدات صفر رہیں اور ڈالر کو سستا رکھا گیا ہمارے معیشت کی صنعتکاری پر اثر پڑا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیں سوچنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ چیلنج اس حکومت کے لیے بھی ہے، یہ عین ممکن ہے کہ اگر ہم نے صحیح اقدامات نہیں لیے تو ہم بھی ناکام ہوجائیں گے یہ اس ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اگر ہم نے مستقل اور پائیدار انداز میں اپنے ملک کو بہتری کی جانب لے جانا ہے تو یہ ایک بنیادی چیلنج ہے جس سے ہمیں نمٹنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی شرح جنوری کے مہینے میں 12 سال کی بلند ترین سطح پر آگئی

ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی زراعت نے اس انداز میں ترقی نہیں ہوئی، کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جبکہ اس پر کتنے لوگ انحصار کرتے ہیں اور جو گروتھ ریٹ تھا وہ بھی صفر کے برابر رہا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ میرے خیال میں اس ملک کا الیکٹرک سٹی سیکٹر پاکستان کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور ہم بطور ملک اس مسئلے کو حل کرنے میں مسلسل کرنے میں ناکام ہے اور یہ مسئلہ گردشی قرضوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مختصراً یہ کہ ہمیں دیوالیہ نظر آرہا تھا، ہم بحران میں داخل ہوچکے تھے، کوئی قرض دینے کے لیے تیار نہیں تھا تو جب لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ نے یہ نہیں کیا، وہ نہیں کیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈالرز ختم ہوچکے تھے اور کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں تھا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا کیونکہ وہ عوام کے لیے بہت خطرناک ہوتا، انہوں نے کہا کہ یہ نمبروں کا کھیل نہیں اس کا انسانوں کی زندگی سے واسطہ ہے۔

’کوئی خوشی سے آئی ایم ایف نہیں جاتا‘

انہوں نے کہا کہ کچھ دوست ممالک نے مدد کی اور ہم نے 8 ارب ڈالر کی دو طرفہ معاونت حاصل کی اور سو ڈالر میں تیل خریدنے کے لیے مؤخر ادائیگی کی سہولت حاصل کی۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ چیز اہم تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں، آئی ایم ایف کے بارے میں بہت تقریریں ہوئی جذبات کا اظہار بھی ہوا میں فقط یہی کہوں گا کہ 2008 میں جو حکومت تھی، وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی اور 2013 میں جو حکومت آئی وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لوگ جو خود جاچکے ہوں وہ دوسرے کو اسی چیز پر تنقید کریں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے کہ ترقی کی رفتار ایسی نہیں ہوتی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، آئی ایم ایف کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا چاہے وہ پچھلی حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت، حالات مجبور کرتے ہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے فائدہ ہوا کہ ہم نے جو 6 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی وہ آسان شرائط پر تھی یہی پیسے ہم کمرشل بنیادوں پر لیتے تو بہت مہنگے پڑتے۔

مزید پڑھیں: ملک بھر میں آٹے کا شدید بحران، ارباب اختیار ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے لگے

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ساری دنیا کو اعتماد ہوا کہ پاکستان ’ڈسپلن‘ اور اپنی حیثیت کے مطابق چلنے کو تیار ہے اور دنیا اور اس کے اداروں سے شراکت داری، اپنے اخراجات کو محدود کرنے اور پاکستان کے صاحبِ حیثیت لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے تیار ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کا براہ راست فائدہ ہوا کہ دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں جیسا کہ عالمی بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے تعاون میں اضافہ کیا اور اس سے پاکستان کی پالیسیوں پر اعتماد بڑھا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لیے دوسری طرف سے بھی آئی ایم ایف کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، یہ زیادتی کی بات ہے کیونکہ ان میں سے ایک شخص اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو رضا باقر پر فخر ہونا چاہیے، وہ لاہور سے پڑھے اور اپنی قابلیت کی وجہ سے امریکا کی بہترین یونیورسٹیز میں پڑھنے گئے، اپنی قابلیت کی وجہ سے آئی ایم ایف میں تعینات ہوئے وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایم این اے کا بندہ ہے تو نوکری مل جائے گی۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ جو لوگ آئی ایم ایف کے کاریڈورز میں نہیں جاسکتے وہ آئی ایم ایف کے بڑے بڑے لوگوں پر تنقید کررہے ہیں تو یہ بھی سن لیں کہ رضا باقر نے آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا ہے انہوں نے اپنی نوکری کو ٹھکرایا کیونکہ وہ پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔

’حکومت کے اقدامات‘

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنے اخراجات میں کمی کرنی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے کچھ ایسے فیصلے کیے جو تاریخ ساز ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک کے مختلف ادارے مختلف لوگ اس جدوجہد میں ساتھ ہے، ایک بڑا فیصلہ تھا کہ فوج کے بجٹ کو فریز کیا جائے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ کیا ایسا فیصلہ کسی نے پہلے کیا ہے؟ سویلین حکومت کے بجٹ میں 40 ارب روپے کمی کا فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم، صدر، کابینہ اراکین کی تنخواہوں میں کمی کی گئی، جنرلز اور سیکریٹریز کی تنخواہوں کو برقرار رکھا گیا یہ بڑے فیصلے ہیں، میں بہت حکومتوں کا حصہ رہا ہوں کوئی ایسے فیصلے نہیں کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا آٹے، چینی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کو سزا دینے کا فیصلہ

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے ہم نے سخت بجٹ بنایا، میں بتانا چاہتا ہوں کہ پہلے 7 ماہ میں ٹیکسز کا ہدف 2200 اور 2100 حاصل کیا یہ پچھلے برس کے مقابلے میں 16.5 فیصد زیادہ تھا۔

مشیر خزانہ نے مزید کہا کہ ہم جب بجٹ بنانے بیٹھے تو ہم نے کہا کہ اگرچہ ہمارے پاس پیسے کم ہیں اور ہم کسی کو کچھ دینا چاہیں تو کس کو دیں اور پاکستان کے برآمدات کو بڑھانے میں ہمارے ساتھ اور پاکستان کے کمزور ترین، جو غربت کی کم ترین سطح پر ہیں، ان کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمزور ترین طبقوں کے پروگرام کا بجٹ 100 سے بڑھا کر 192 ارب کیا جبکہ برآمد کنندگان کے لیے زیرو فیصد ٹیکس، بجلی اور گیس کو سبسڈائز کیا گیا، سستی شرح سود پر قرض دیا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ 5 برس میں برآمدات میں صفر اضافے کے بعد ابتدائی 7 ماہ میں برآمدات میں واضح اضافہ ہوا اور یہ ایسے وقت میں ہوا جب دنیا میں مندی آئی ہوئی تھی اور ویتنام یا بنگلہ دیش برآمدات بڑھانے میں ناکام ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک بڑا خطرہ تھا جسے پہلے سال میں 20 ارب روپے سے کم کرکے 13 ارب روپے تک لایا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ سال میں پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ میں کوئی سیاسی بات نہیں کررہا حقائق بیان کررہا ہوں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ بجٹ کے مالی خسارے میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا، نان ٹیکس ریونیو میں 170 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف ایک ہزار ایک سو ارب روپے ہے اور یہ ایک ہزار 5 سو روپے ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی نے پی ٹی آئی کی کارکردگی پر سوال اٹھادیا

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مشیر خزانہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر آٹے کی کمی ہے تو وزیر برائے تحفظ خوراک ملک میں آٹے کے لیے ایمرجنسی کیوں نہیں لگائی؟

انہوں نے کہا کہ کچھ وزرا نے کہا پچھلی حکومت آٹے کا بحران پیدا کرگئی ہوسکتا ہے کرگئی ہو، ایک وزیر نے اخبار میں بیان دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوا۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس پوری کابینہ میں صرف موسمیاتی تبدیلی کی وزیر نے کام کیا ہے جنہوں نے اسلام آباد سے پلاسٹک بیگز ختم کردیے ہم ان کی تعریف کرتے ہیں، باقی وزیر اپنی کارکردگی بتائیں کہ اس نے ڈیڑھ سال میں کیا کیا ہے؟

مزید پڑھیں: مہنگائی پر نظر رکھنے کی پالیسیوں کے جلد مثبت نتائج سامنے

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ آٹے کا بحران مافیا نے پیدا کیا ہے، کون ہے مافیا آج تک پتہ نہیں چلا پھر وزیراعظم کوالالمپور چلے گئے واپس آئے تو کہا کہ مسئلہ آٹے اور چینی کے بحران کا نہیں دکانوں کا مسئلہ ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں مشیر خزانہ، حکومت اور عوام سے ہمدردی کرسکتا ہوں کیونکہ ایک بھی بات حقیقت پر مبنی نہیں، عوام کو موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرپی ٹی آئی حکومت پانچ سال پورے کرتی ہے تو ملک کا گردشی قرضہ دگنا ہوجائے گا۔

ن لیگ کی حکومت نے 101 فیصد سے زائد نوٹ چھاپے، عمر ایوب

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

بعدازاں وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن مگرمچھ کے آنسو بہاتی رہتی ہے لیکن اپنی حکومت کے دوران زمینی حقائق بھول جاتے ہیں۔

ایک رپورٹ پڑھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1974 میں اقدامات اور قیمتوں کی صورتحال ان اقدامات کے مقابلے میں شدید تھے اور اس وقت مہنگائی کی شرح زیادہ تھی۔

موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر حکومت پر انگلیاں اٹھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف چیزوں کی بات کرتے ہیں لیکن گزشتہ 5 سالوں میں ن لیگ کی حکومت نے 101 فیصد سے زائد نوٹ چھاپے جس کا خمیازہ عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کو بھگتنا پڑا۔

عمر ایوب نے کہا کہ ماضی میں حفیظ شیخ نے کہا تھا کہ مفتاح اسمٰعیل نے یہ شروع کیا اور ہمیں اس کے نتائج بھگتنے پڑے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024