• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

یہ ’آیت اللہ مائیک‘ کون ہے؟

شائع January 29, 2020

افغانستان کے صوبہ غزنی میں امریکی فوج کا ایک طیارہ گر کر تباہ ہوا، اس طیارے کو امریکی فورسز ‘وائی فائی ان سکائی’ کا نام دیتی ہیں۔ یہ طیارہ افغانستان میں امریکی فورسز کے رابطوں کا اہم ذریعہ ہے، جس کی تباہی بڑی خبر ہے۔

اگرچہ امریکی وزیرِ دفاع اور پینٹاگون نے اس تباہی کی تصدیق کردی ہے لیکن اس طیارے میں کون سوار تھا، اس کا مشن کیا تھا، کتنے لوگ مارے گئے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی تک امریکی انتظامیہ کی طرف سے نہیں مل رہا۔

ایرانی میڈیا نے روس کے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس طیارے میں ایران، عراق اور افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے آپریشنز کا انچارج مائیکل ڈی اینڈریا سوار تھا اور طیارے کی تباہی کے ساتھ وہ بھی مر گیا۔

افغان صوبے غزنی کے پولیس سربراہ خالد وردک کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے ملبے تک طالبان رسائی نہیں دے رہے بلکہ ملبے تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے افغان فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں نے مار بھگایا۔ مقامی طور پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس جہاز کے ملبے سے 4 لاشیں ملیں جبکہ 2 افراد زندہ بچ گئے تھے جنہیں طالبان نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

ایرانی میڈیا کی خبر اگر درست ہے اور روس کے انٹیلی جنس ذرائع نے بلف نہیں کھیلا تو یہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد خطے میں دوسرا بڑا واقعہ ہے۔

مائیکل ڈی اینڈریا خطے میں امریکا کے لیے ویسی ہی اہمیت رکھتا ہے جیسی جنرل سلیمانی کی اہمیت ایران کے لیے تھی۔ مائیکل ڈی اینڈریا کے کئی نام ہیں۔ سی آئی اے کے لیے وہ انڈر ٹیکر، ڈارک پرنس، آیت اللہ مائیک ہے تو ہولی وڈ کے لیے وہ بھیڑیا ہے، جو ہولی وڈ فلم ‘زیرو ڈارک تھرٹی’ میں دکھایا گیا۔ زیرو ڈارک تھرٹی فلم سی آئی اے آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل سے متعلق ہے۔

عام امریکیوں کے لیے وہ وجود ہی نہیں رکھتا، اس کی وجہ شاید یہی ہو کہ مائیک آج تک انڈر کور رہا ہے۔ مائیک 38 سال سے سی آئی اے میں ہے اور سیکڑوں ہلاکتوں کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے۔ مائیک ایک تندخو اور بدتمیز شخص ہے جسے اس کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ خوشدلی کے ساتھ یاد نہیں کرتے۔ گہرے رنگوں کے سوٹ پہننے کا شوقین مائیک سگریٹ نوشی کا عادی رہا ہے۔

1989ء میں سی آئی اے میں شامل ہونے والے مائیک کو 2015ء تک جاسوسی کی دنیا کے باہر کوئی نہیں جانتا تھا لیکن 2017ء میں نیویارک ٹائمز میں چھپی رپورٹ سے مائیک اور اس کے ‘کارنامے’ دنیا کے سامنے آگئے۔ مارچ 2015ء تک مائیک سی آئی اے کے انسدادِ دہشتگردی سینٹر کا ڈائریکٹر تھا جس کی نگرانی میں امریکا نے افغانستان اور دنیا بھر میں ڈرون حملے کیے۔

2 سال بعد یعنی 2017ء مائیک اس وقت ایک اور روپ میں سامنے آیا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسے سی آئی اے کے ایران آپریشنز کا انچارج بنایا۔ اس بار اس کا نک نیم ‘آیت اللہ مائیک‘ بھی سامنے آیا۔ ایران آپریشنز کی سربراہی کسی بھی دوسرے سی آئی اے اسٹیشن انچارج سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ تہران میں امریکی سفارتخانہ موجود نہیں، اور امریکی سی آئی اے کے اسٹیشن انچارج عموماً اپنے سفارتخانوں سے ہی آپریٹ کرتے ہیں۔ ایران مشن اس لیے بھی آسان کام نہیں کہ ایران امریکا دشمنی ڈھکی چھپی نہیں اور ایران اپنے خلاف کام کرنے والوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔

1989ء میں سی آئی اے میں شمولیت کے بعد مائیک نے ورجینیا میں امریکی ایجنسی کے ٹریننگ سینٹر میں تربیت لی اور اسے افریقہ تعینات کیا گیا۔ کئی سال افریقہ میں کام کرنے کے بعد وہ امریکا واپس آیا تو اسے سی آئی اے کے انسدادِ دہشتگردی سینٹر کی سربراہی ملی۔ عراق جنگ کے دوران مائیک بغداد میں سی آئی اے کی سینئر پوسٹ پر تعینات رہا۔ کہا جاتا ہے کہ عراق میں تعیناتی کے دوران اسے ایک مسلم خاتون ملی اور اس سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کیا اور اس خاتون سے شادی بھی کرلی۔

2006ء میں مائیک کو واپس امریکا بلوا لیا گیا اور اسے کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (سی ٹی سی) کی سربراہی سونپی گئی۔ یہ عہدہ مشکل تصور کیا جاتا ہے جس پر کسی نے بھی 3 سال سے زیادہ کبھی کام نہیں کیا لیکن مائیک 9 سال اس عہدے پر کام کرتا رہا۔ مائیک اس عہدے پر کام کے دوران صبح سویرے دفتر پہنچ جاتا اور اکثر رات کو دیر ہونے پر دفتر میں ہی سوجاتا تھا۔ اسی عرصے میں اس نے دوبارہ سگریٹ نوشی شروع کی، حالانکہ یہ عادت وہ 10 سال پہلے چھوڑ چکا تھا۔

مائیک نے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں ڈرونز کے کردار کو بڑھایا۔ مائیک نے ڈرونز کا کردار اس قدر بڑھایا کہ طالبان کی قید میں موجود امریکی شہری بھی اس کے ڈرون حملوں میں مارے گئے۔

سی آئی اے کے ایران آپریشنز کا انچارج بننے سے پہلے سی ٹی سی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مائیک نے پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے کرائے۔ مائیک کے سی ٹی سی ڈائریکٹر بننے سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں ڈرون حملوں کی تعداد محدود تھی۔ 2006ء میں مائیک نے سی ٹی سی کا چارج سنبھالا تو اس سال صرف 3 ڈرون حملے ہوئے تھے۔ 2010ء میں جب ڈرون حملے عروج پر تھے تو پاک افغان سرحد پر ان حملوں کی تعداد 117 تھی۔ مائیک کی سربراہی میں ہی ڈرون حملے یمن تک پھیلے، ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں القاعدہ کی کمر ٹوٹی اور مائیک کو اس کی ایجنسی اس کا بھرپور کریڈٹ دیتی ہے۔

سی ٹی سی کی سربراہی کے دوران جہاں مائیک کو اس کے مشنز میں کامیابیاں ملیں وہیں اس کے مشنز کو کئی دھچکے بھی لگے۔ سی آئی اے کے سورس کے طور پر کام کرنے والے القاعدہ کے ایک رکن نے افغانستان میں امریکی اڈے میں خودکش دھماکہ کیا، اس حملے میں سی آئی اے کے 7 اہلکار مارے گئے، اور صرف ایک حملے میں امریکیوں کا اتنا بڑا نقصان افغان جنگ کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔

اسامہ بن لادن کی تلاش میں بھی مائیک کا کردار اہم تھا۔

صدر ٹرمپ نے جب ایران پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا تو ان کی قومی سلامتی ٹیم میں تمام ایران مخالف ارکان تھے جو ہر صورت ایران کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ اس وقت کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹیلرسن ایران کے جوہری معاہدے پر عالمی طاقتوں کے سمجھوتے کو مکمل ناکامی سے تعبیر کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کے اس وقت کے قومی سلامتی مشیر جنرل میک ماسٹر عراق جنگ کے اوائل میں وہاں تعینات رہے تھے اور ان کو یقین کی حد تک گمان تھا کہ عراق میں مزاحمت کار گروپوں کو ایران کی مدد حاصل تھی اور امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار صرف مزاحمت کار گروپ نہیں، ایران بھی تھا۔

موجودہ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو بھی ایران مخالف ہیں اور کانگریس کے الیکشن سے پہلے مائیک پومپیو نے فارن پالیسی میگزین میں مضمون بھی لکھا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ دوستوں کو ایران کے ساتھ کاروبار نہیں کرنے دینا چائیے۔ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے تقرر پر انہوں نے کانگریس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ برقرار رہتا ہے تو وہ ایران کی طرف سے اس معاہدے کی ہر شرط پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیں گے اور وہ اس کی مکمل نگرانی کریں گے۔ یہی حالات تھے جن میں مائیکل ڈی اینڈریا کو سی ٹی سی سے ایران آپریشنز کا انچارج بنانے کا فیصلہ ہوا۔

ایران میں مائیک پومپیو کی دلچسپی ان کے وزیرِ خارجہ بننے سے بہت پہلے کی ہے جب وہ 2016ء میں پہلی بار رکن کانگریس منتخب ہوئے تھے۔ مائیک پومپیو نے ایران کے ویزے کے لیے آیت اللہ خامنہ ای کے نام خط لکھا تھا اور یہ خط ایران تک پہنچانے کے لیے وہ واشنگٹن میں 2 ساتھی ارکانِ کانگریس کے ساتھ پاکستان کے سفارتخانے پہنچے تھے۔

پاکستانی سفارتخانے آمد کی وجہ یہ تھی کہ واشنگٹن میں ایران کا سفارتخانہ نہیں اور ایران سفارتی مفادات کے لیے پاکستانی سفارتخانے میں ایک ڈیسک موجود ہے۔ ایرانی ویزے کے لیے مائیک پومپیو کے عزائم بہت ہی عجیب تھے۔ عجیب اس لیے کہ مائیک پومپیو کا خیال تھا کہ ایران انہیں نہ صرف ویزا دے بلکہ اپنے جوہری پروگرام کے مقامات کا بھی وزٹ کرائے، ایران میں امریکی قیدیوں سے ملوائے اور ملک کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بریفنگ دے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایرانی پارلیمانی انتخابات کی مانیٹرنگ کی خواہش بھی رکھتے تھے۔

جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی اور یورپی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا کہ مائیک پومپیو نے صدر ٹرمپ کو اس حملے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ایران کے مذہبی رہنماؤں کے بعد سب سے بڑا کوئی ٹارگٹ ہے تو یہی ہے۔

مائیکل ڈی اینڈریا عراق اور ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کا منصوبہ ساز بھی مانا جاتا ہے۔ عراق اور ایران میں حالیہ چند ماہ میں ہونے والے مظاہروں، ان مظاہروں کے خلاف مظاہروں اور حکومت مخالفین پر نامعلوم افراد کی فائرنگ بالکل وہی انداز ہے جو شام میں خانہ جنگی سے پہلے اپنایا گیا اور بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے کرائے گئے مظاہروں کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ بشار الاسد بھی پہلے پہل اس منصوبہ بندی کو نہ سمجھ پائے لیکن بعد میں مظاہرین پر ہونے والی فائرنگ کے پیچھے چھپے ہاتھوں سے انہیں یقین ہوگیا کہ ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔

جنرل قاسم کے قتل سے پہلے ایران میں تیل قیمتوں پر پُرتشدد مظاہرے ہوئے، درجنوں افراد مارے جانے کی اطلاعات آئیں، ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں لیکن اپ لوڈ کرنے والے تمام افراد یورپی ملکوں میں بیٹھے تھے۔

جنرل قاسم کے قتل کے بعد یوکرین کے طیارے کو میزائل لگنے کی ویڈیو بھی برطانیہ سے اپ لوڈ ہوئی، ایران میں تیل قیمتوں پر مظاہروں کے بعد گرفتاریاں ہوئیں اور سی آئی اے کے کارندے پکڑے جانے کے دعوے کیے گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ٹویٹر پر لکھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے سی آئی اے ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے مظاہرین کے حق میں فارسی ٹویٹس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اگر افغان صوبے غزنی میں مائیکل ڈی اینڈٖریا ہلاک ہوا ہے تو یہ نہ صرف افغان امن مذاکرات کے لیے بڑا دھچکا ہوگا بلکہ اس سے ایران امریکا کشیدگی بھی نیا رخ اختیار کرے گی۔ امریکا ایسے واقعات کی اس وقت تک تصدیق نہیں کرتا جب تک ردِعمل تیار نہ کرلے۔ اگر سی آئی اے کے ایران آپریشنز کے انچارج کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تب بھی ایرانی میڈیا نے یہ خبر چلا کر امریکا کے انڈر کور عہدیدار کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے بغیر نقاب لا کھڑا کردیا ہے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Furrukh Rao Jan 30, 2020 02:25am
Dil Ke Khush Rakhne Koo Ghalib Yeh Khayal Acha Hai.
Alley raza Jan 30, 2020 10:39am
Bohat Acha Likha Hay
Aamir Khan Jan 30, 2020 11:09am
If he has Micheal Di Andria has joined the CIA in 1989, how can he serve the CIA with 38 years...!!!

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024