خوفزدہ ہونے کے باوجود لوگ ہارر فلمیں دیکھنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کروڑوں افراد ہارر فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں حالانکہ ان کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ بھی ہوجاتے ہیں، مگر ڈرنے کے باوجود وہ انہیں دیکھنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
تو اس کا جواب آپ کے دماغ میں چھپا ہے۔
یہ دلچسپ دعویٰ فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
ترکو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہارر فلمیں دماغ پر ایسی مہارت کے ساتھ اثرانداز ہوتی ہیں کہ خوف کے باوجود جوش و خروش میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے رضاکاروں کو ہارر فلمیں دکھا کر ان کی دماغی سرگرمیوں کا نقشہ بنایا اور دریافت کیا کہ دماغ لگاتار ہمیں خطرے کے ردعمل کے ایکشن کے لیے تیار کررہا ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہارر فلمیں دماغ کو احمق بناکر ہمارے جوش و خروش میں اضافہ کرتی ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا کہ ماورائی مخلوق کے مقابلے میں حقیقی دہشت زدہ کردینے والے واقعات اور نفسیاتی طور پر اثرانداز ہونے والی ہارر فلمیں دماغ پر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
تحقیق کے دوران گزشتہ صدی کی سو بہترین اور دہشت زدہ کردینے والی فلمیں دکھائیں اور پھر دیکھا کہ ان کو دیکھ کر لوگ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ 72 فیصد افراد نے ہر 6 ماہ میں ایک ہارر فلم دیکھی اور خوف اور ذہنی بے چینی سے ہٹ کر سب سے اہم وجہ جوش و خوش تھی۔
تحقیق کے مطابق ہارر فلمیں میل جول کا بھی ایک جواز ہے کیونکہ بیشتر افراد ایسی فلمیں اکیلے دیکھنے کی بجائے دوسروں لوگوں کے ساتھ مل کر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ویسے تو ہر فلم میں ہی ہیرو کو تحفظ یا خوشی کے حوالے سے کسی قسم کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے مگر ہارر فلموں میں ایسے سپرہیومین یا ماورائی خطرات کو دکھایا جاتا ہے جن کی وجہ سمجھنا یا لڑنا آسان نہیں ہوتا۔
محققین کے مطابق جب ایسی فلموں کو دیکھتے ہوئے بتدریج ذہنی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے تو دماغ کے وہ حصے زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں جو بصری اور سمی اوراک کا کام کرتے ہیں تاکہ ماحول میں موجود خطرے کو شناخت کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اچانک دھچکے کے بعد ان حصوں میں دماغی سرگرمیاں زیادہ ہونے لگتی ہیں جو جذبات کا تجزیہ، خطرے کا تخمینہ اور فیصلہ سازی کا کام کرتے ہیں، جبکہ فوری ردعمل کی صلاحیت متحرک ہوجاتی ہے۔