• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

جسٹس عیسیٰ ریفرنس: ’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کیس میں بدنیتی عیاں تھی‘

شائع January 27, 2020
رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ یہی صورتحال رہی تو کل ایس ایچ او بھی ججز کے خلاف کارروائی شروع کر دے گا—تصویر: اسکرین شاٹ
رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ یہی صورتحال رہی تو کل ایس ایچ او بھی ججز کے خلاف کارروائی شروع کر دے گا—تصویر: اسکرین شاٹ

جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس میں بدنیتی عیاں تھی کیوں کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کا فائدہ اس وقت کے صدر کو ہونا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ میں کچھ دستاویزات دینا چاہتا ہوں، جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ دستاویزات کس نوعیت کی ہیں؟

رشید اے رضوی نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چند فیصلے پیش کرنا چاہتا ہوں، ججز کے خلاف صرف صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کر سکتے ہیں، صدر اور کونسل کے علاوہ کوئی بھی انکوائری کرے تو غیر قانونی ہوگی۔

رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کردہ دستاویزات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اعلی عدلیہ اس نقطے پر کسٹمز اور اِنکم ٹیکس مقدمات میں اصول وضع کر چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'وزیراعظم بے اختیار ہوئے تو سارا نظام شتر بے مہار ہوجائے گا'

دلائل جاری رکھتے ہوئے رشید اے رضوی نے کہا کہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹ غیرقانونی باڈی ہے اور غیرقانونی طریقے سے جمع شدہ مواد پر آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی جبکہ اثاثہ جات برآمدگی یونٹ ازخود اختیار حاصل نہیں کر سکتا۔

رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ یہی صورتحال رہی تو کل ایس ایچ او بھی ججز کے خلاف کارروائی شروع کر دے گا، صدر اور وزیراعظم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

دوران سماعت ملک میں حالیہ آٹے کا بحران بھی موضوع گفتگو بنا، جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ صدر اور جوڈیشل کونسل جج کے خلاف میڈیا کی خبر پر ایکشن لے سکتے ہیں؟

جس پر رشید اے رضوی نے جواب دیا کہ اوّل تو صدر صاحب اخبار پڑھتے ہی نہیں ہیں، چند روز قبل کسی نے صدر سے گندم بحران کا سوال کیا تھا جس پر صدر نے گندم بحران سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں؛ جسٹس عیسیٰ کیس: 'اثاثہ جات برآمدی یونٹ قانون کو خاطر میں نہیں لارہا'

رشید اے رضوی کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے ایسے اصول وضع کر دیے تو کوئی نہیں بچے گا، سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی تبدیلی آئی ہے، گزشتہ 2 سے 3 سال میں جو کونسل میں ہوا، امید ہے اب نہیں ہوگا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے والی تبدیلی کو چھوڑ دیں، اب جسٹس عمر عطاء بندیال کونسل کا حصہ بن چکے ہیں۔

رشید اے رضوی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آرڈیننس فیکٹری لگا رکھی ہے کیا ایسے شخص سے ضمیر کے مطابق فیصلے کی امید لگائی جا سکتی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنے جوڈیشل ذہن سے کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ وزیراعظم کی سفارش پر ریفرنس جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'کوئی شخص جج کے خلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا'

جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر نے صرف ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے جوڈیشل مائنڈ نہیں جس پر رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ صدر نے نان جوڈیشل مائنڈ بھی اپلائی نہیں کیا۔

رشید اے رضوی نے کہا کہ ریفرنس میں جج کے نام کے ساتھ معزز بھی نہیں لکھا گیا، صدر نے ریفرنس پر دستخط کرکے حلف کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے دریافت کیا کہ جج کے خلاف شکایت حکومت نے صدر کو بھجوائی تھی، کیا صدر ایڈوائس سے ہٹ کر اختیار استعمال کر سکتے ہیں؟

رشید اے رضوی نے کہا کہ وزیراعظم کی ایڈوائس بدنیتی پر مبنی تھی، صدر کو ریفرنس کی ایڈوائس پر آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل آزاد ادارہ ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی عیاں تھی کیوں کہ سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کا فائدہ اس وقت کے صدر کو ہونا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پاناما پیپرز کے ماڈل پر مبنی ہے، وکیل

بعدازاں سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست کے خلاف سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں؛ 'کابینہ کی منظوری کے بغیر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دیا جائے'

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بینچ سماعت کررہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024