جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پاناما پیپرز کے ماڈل پر مبنی ہے، وکیل

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2019
وفاقی حکومت کو پہلے ایک باقاعدہ قانون کے تحت شہریوں کے فرائض بیان کرنے چاہیئیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت کو پہلے ایک باقاعدہ قانون کے تحت شہریوں کے فرائض بیان کرنے چاہیئیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لیگل ٹیم کے رکن بابر ستار کا کہنا ہے کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس مروجہ قوانین کو نظر انداز کرکے پاناما کیس کی طرز پر بنایا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کرائے گئے جواب الجواب میں بیان کیے گئے حقائق 2017 میں پاناما پیپرز کیس کی عکاسی کرتے ہیں جس میں اسی کیس کی طرح منی لانڈرنگ اور دیگر ذرائع سے آف شور جائیدادیں بنانے کے الزامات عائد تھے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کی قانونی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ بابر ستار نے فل کورٹ کے سامنے دلائل دیے۔

بابر ستار نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے 2017 کے فیصلے کی نشاندہی کی تھی جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین 62 کے تحت اقامہ (رہائشی اجازت نامہ) چھپانے پر نااہل قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو نہ بھیجنے کا فیصلہ

گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر 10 رکنی عدالتی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے بابر ستار کو روسٹرم پر خوش آمدید کہا تھا۔

بابر ستار نے فل کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ وہ ایڈووکیٹ منیر اے ملک جیسے دلائل نہیں دیں گے، ان کے دلائل الگ ہیں۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ شہریوں کے لیے قانونی فرائض اور ذمہ داریاں اخلاقیات کے مبہم بیانات کے بجائے قانون میں شامل ہونے چاہیئیں اور آئین کے آرٹیکل 4 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کو پہلے ایک باقاعدہ قانون کے تحت شہریوں کے فرائض بیان کرنے چاہیئیں۔

بابر ستار نے 2007 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ اقتباسات بھی بیان کیے اور زور دیا کہ ایگزیکٹو کو قانون کی جانب سے دیے گئے اختیارات کے علاوہ کوئی طاقت حاصل نہیں لہٰذا کسی شہری کے حقوق میں کسی مداخلت کو قانون کے تحت شامل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) کوئی رعایت نہیں ہے کیونکہ یہ فرد کی ذمہ داری سے نمٹتا ہے اور پورے خاندان کے ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے کا نہیں کہتا۔

یہ بھی پڑھیں: 'کابینہ کی منظوری کے بغیر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دیا جائے'

بابر ستار نے کہا تھا کہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ آف شور جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تھیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج بھی ایک شہری ہیں اور ان کے پاس بھی ایک شہری جتنے بنیادی حقوق موجود ہیں۔

بابر ستار نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہٹایا جاتا ہے یہ جج کو اضافی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ شق ایک حفاظتی قانون ہے اور یہ کسی جج کے بنیادی حقوق واپس نہیں لیتا۔

وکیل نے پھر منصفانہ ٹرائل کے حق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 10اے کا حوالہ دیا اور کہا کہ جج کے خلاف کسی کارروائی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ 'شاید آپ کہہ رہے کہ ریفرنس کے مندرجات اس معیار پر پورا نہیں اترتے کہ اسے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا جائے'۔

مزید پڑھیں: جج کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرہ نہیں، اٹارنی جنرل

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 10 اے کا آرٹیکل 209 سے کوئی تعلق نہیں لیکن بابر ستار نے جواب دیا کہ اگر کسی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کا سامنا ہے تو آرٹیکل 10 اے کو معطل نہیں سمجھا جاسکتا۔

سماعت کے دوران جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چونکہ سپریم جوڈیشل حقائق کا تعین نہیں کرسکتی تو وہ جج جس کے خلاف کونسل کی کارروائی جاری ہے اسے اپنے حقائق کے تعین کے لیے پہلے فورم تلاش کرنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل مس کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر کارروائی کرتی ہے اور کوئی قانونی ذمہ داری تھی یا اثاثے ظاہر کرنے کا فرض تھا اور اس فرض میں کوتاہی ہوئی ہے تو سوال تو اٹھے گا چاہے یہ خلاف ورزی مس کنڈکٹ ہو یا نہ ہو۔

ریفرنس دائر کرنے سے قبل فورمز ڈھونڈنے سے متعلق دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی آرٹیکل 209 کی تضحیک بن جائے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں بابر ستار سے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک انتظامی نہیں خصوصی ٹریبونل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیرقانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں