منشیات کیس: رانا ثنا اللہ کےخلاف آج بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور پنجاب کے لیگی صدر رانا ثنا اللہ کے خلاف انسداد منشیات عدالت میں آج بھی فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔
واضح رہے کہ انسداد منشیات عدالت نے رانا ثنا اللہ کو فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کے لیے طلب کیا تھا۔
مزیدپڑھیں: رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس ختم نہیں ہوا، ابھی بھی ملزم ہیں، شہریار آفریدی
انسداد منشیات عدالت کے جج شاکر حسن نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ سے کہا کہ وہ بھی بیٹھ جائیں۔
جس رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 'میں اپنا کیس دیکھنا چاہتا ہوں'۔
اس دوران عدالت میں رانا ثنا اللہ کے وکیل سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ میرے موکل کے خلاف چالان پیش کر دیا گیا لیکن رانا ثنا اللہ کی فوٹیج نہیں لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوشن کو تمام ثبوت چالان کے ساتھ جمع کرانے چاہیے اور اگر اے این ایف کے پاس کوئی فوٹیج نہیں ہے تو عدالت کو تحریری اپنا بیان دے۔
سید فرہاد شاہ نے کہا کہ چالان کے ساتھ لف کی گئی تمام دستاویزات رانا ثنا اللہ کو فراہم نہیں کی گئیں تاہم صرف چالان کے 2 صفحات دینے سے کارروائی مکمل نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: رانا ثنا اللہ کی کیمپ جیل سے رہائی کے مناظر
انہوں نے کہا کہ سی ڈی آر، کیمیکل تجزیہ، ایف آئی اے کی سفر کی تفصیلات کے خطوط فراہم نہیں کئے گئے جبکہ رانا ثنا اللہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ ملزم کا بیرون اسمگلروں سے روابط تھے۔
انہوں نے اپنے موقف میں کہا کہ رانا ثنا اللہ کی سفری ہسٹری کا مراسلہ انتہائی اہم ہے اور جب چالان پیش کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ لف دستاویزات کی کاپیاں فراہم کرنا بھی قانونی تقاضا ہے۔
رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف سیاسی کیس بنایا گیا، میڈیا کے ذریعے پورے پاکستان میں یہ جھوٹ بتایا گیا کہ رانا ثنا اللہ بین الاقوامی منشیات فروش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف جو بھی ثبوت ہیں ان کی کاپیز بھی ہمیں دے دیں اور فوری ٹرائل کا آغاز کر دیں۔
جس کے بعد اے این ایف کے وکیل کے دلائل نے کہا کہ اس مرحلے میں رانا ثنا اللہ کو ثبوت کی کاپیاں فراہم نہیں کی جا سکتیں کیونکہ اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم ان کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔
مزیدپڑھیں: منشیات کیس: رانا ثنااللہ کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اے این ایف کے چالان کے ساتھ مکمل دستاویزات لف کر دیے گئے ہیں اور ہم نے تو چالان عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رانا ثنا اللہ کے وکلا ٹرائل میں تاخیر کے لیے حربے استعمال کر رہے ہیں اور ہم عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ان کے خلاف ٹرائل کا حکم دے۔
جس پر رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ اے این ایف کے وکیل بیان دے دیں کہ ان کے پاس رانا ثنا اللہ کی کوئی فوٹیج نہیں ہے ہم فرد جرم عائد کروا لیتے ہیں۔
اس دوران انسداد منشیات عدالت کے جج شاکر حسن نے ریمارکس دیے کہ 'میری گاڑی تھڑد کلاس گاڑی ہے نہ مجھے اسٹینو دیا جا رہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں نے تین مرتبہ متعلقہ منسٹری کو لکھا کے لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا'۔
یہ بھی پڑھیں: ضمانت کے بعد رانا ثنا رہا: استغاثہ کے کیس میں 'خامیاں' واضح ہیں، تفصیلی فیصلہ
علاوہ ازیں رانا ثنا اللہ کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ میرے وکل کی جان کو خطرہ ہے اور وہ ایک اپوزیشن لیڈر بھی ہیں اس لیے انہیں ان کی بلٹ پروف گاڑی اے این ایف کی کسٹڈی سے واپس دی جائے۔
جس پر اے این ایف کے وکیل نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے اور جو گاڑی منشیات سپلائی ہو اسے کس طرح واپس دی جاسکتی ہے۔
عدالت نے رانا ثنا اللہ کے خلاف کیس کی سماعت 8 فروری تک ملتوی کر دی۔
اب جج کو اسٹینو گرافر میسر نہیں، رانا ثنا اللہ
بعدازاں رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جج کو واٹس ایپ پر تبدیل کر دیا گیا کوینکہ وہ حکومت کی بات نہیں مان رہے تھے اور اب موجودہ جج کو اسٹینو گرافر اور گاڑی نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ڈھائی ماہ تک عدالت میں جج ہی تعینات نہیں تھے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 'وفاقی وزیر مملکت شہریار آفریدی کہتے رہے کہ ایک ملزم کو فیصل آباد سے پکڑا اور اس کے مزید گرفتاریاں کیں اور ان تمام زیر حراست کا تعلق رانا ثنا اللہ سے ان کا تعلق ثابت ہوا تو ان ملزموں کو عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا'۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان اور شہریار آفریدی میرے خلاف سازش میں شامل نہیں تو حکومت پتہ کرے کہ کون اس سازش کا ذمہ دار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگلی سماعت پر ہم شہریار آفریدی اور ڈی جی اے این ایف کو عدالت میں بلانے اور ویڈیو پیش کرنے کی استدعا کریں گے'۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 'آج ثابت ہو گیا کہ میرے خلاف بدترین سیاسی انتقام کی بنیاد پر جھوٹا مقدمہ گھڑا گیا'۔