سمندر میں غیراستعمال شدہ پانی کے اخراج سے سالانہ 29 ارب ڈالر کا نقصان
اسلام آباد: آبی ذخائر کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے غیر استعمال شدہ دریاؤں کے پانی کے سمندر میں اخراج سے پاکستان کو سالانہ 29 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر محمد یوسف کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی ذخائر میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے پنجاب کے رکن راؤ ارشاد علی خان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم نے ڈیم نہیں بنائے تو ہم اور ہماری آنے والی نسل بھوک سے مرجائے گی'۔
کمیٹی نے پانی کے بہاؤ کی معلومات کے صحیح تعین کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کے لیے جون تک کنٹریکٹ دینے کے مرحلے کو مکمل کرنے اور بلوچستان سے ارسا کے رکن کے فوری تقرر کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: پانی کی قلت: ارسا کا دو بڑے ڈیموں کی تعمیر کا مطالبہ
سینیٹرز نے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے آبی ذخائر فیصل واڈا کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔
سینیٹر محمد یوسف کا کہنا تھا کہ 'یہ بدقسمتی ہے کہ فیصل واڈا بوٹ والا کے پاس ٹاک شوز میں جانے اور ریاستی اداروں کا بوٹ دکھا کر مذاق اڑانے کا بہت وقت ہے مگر ان کی وزارت سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے کا وقت نہیں ہے'۔
ارشاد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ تقریباً 10 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سے 40 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے اور 10 لاکھ ایکڑ فٹ کی لاگت تقریباً ایک ارب ڈالر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سالانہ 2 کروڑ 90 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کوٹری سے بہایا جاتا ہے جو دریائے سندھ میں پانی کی ریگولیشن میں آخری اسٹرکچر ہے اور اس کے بعد سے وہ بحیرہ عرب میں چلا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اس پانی کو اپنے آبی ذخائر کی صلاحیت بڑھا کر ذخیرہ کرسکتے ہیں اور بنجر زمین کو زرخیز بنا سکتے ہیں تاہم بدقسمتی سے یہ 1976 سے ضائع ہورہا ہے، ہماری آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے اور اگر ہم اسی طرح پانی ضائع کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب عوام بھوک سے سڑکوں پر نکل آئیں گے اور ہم سب بھوک سے مر جائیں گے، ہماری مستقبل کی نسل اضافی ڈیمز کے بغیر بھوک سے مرجائے گی'۔
ارشاد خان کا کہنا تھا کہ منگلا اور تربیلا ڈیم میں بالترتیب 73 لاکھ ایکڑ فٹ اور 60 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے اور منگلا ڈیم کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی 97 لاکھ ایکڑ فٹ سے کم ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سندھ سے ارسا کے 2 اراکین کی تعیناتی سے انکار
سندھ اور پنجاب کے درمیان تنازع کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے قانونی رپورٹ کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) میں 23 دسمبر کو پیش کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ وزیر اعظم نے اے جی پی کی قیادت میں کمیٹی قائم کی ہے جو چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہے اور وہ اس معاملے پر اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ پانی کے بہاؤ کو دیکھنے کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم ایک قومی منصوبہ ہے جو اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے تاہم ٹیلی میٹری گیجز لگانے کے لیے جس ادارے کو کنٹریکٹ دیا گیا تھا پنجاب حکومت نے اس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس سے واپس لے لیا ہے جس کی وجہ سے ریگولیٹر نے دوبارہ نیلامی کا فیصلہ کیا ہے۔
کمیٹی نے تجویز دی کہ اس مرحلے کے مکمل ہونے تک واٹر انسپیکٹرز کو تقسیم کے مقامات پر تعینات کیا جائے جو کسی بھی قسم کی بے ضابگیوں پر نظر رکھیں۔