ڈان کے سی ای او حمید ہارون نے فلم ساز جامی کو قانونی نوٹس بھیج دیا
ڈان کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون نے اپنے وکیل کے ذریعے فلم ساز جمشید محمود کو ریپ کے الزام پر قانونی نوٹس بھیج دیا۔
حمید ہارون نے جامی کی عرفیت سے مشہور ڈائریکٹر کو ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے سیکشن 8 کے تحت نوٹس بھیجا ہے جس میں ان سے عوامی سطح پر غیر مشروط معافی اور ریپ کے الزامات واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جامی نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے قانون نوٹس موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی اس پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'معافی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔'
امریکا میں موجود فلم ساز نے کہا کہ 'جنسی ہراسانی سے متاثرہ افراد اور مستقبل میں اس کا شکار ہونے والوں کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔'
انہوں نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی گزشتہ پوسٹوں میں حمید ہارون کے نوٹس میں اٹھائے گئے نکات میں سے کئی پر بات کر چکے ہیں۔
ٹوئٹر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملنے کے الزامات سے کہیں زیادہ مجھے خود ساختہ سینسرشپ سے تکلیف ہوتی ہے۔'
واضح رہے کہ جامی نے گزشتہ سال اکتوبر میں ایک 'میڈیا ٹائیکون' پر 13 سال قبل ان کے ریپ کا الزام عائد کیا تھا۔
بعد ازاں 28 دسمبر کو انہوں نے مبینہ ریپسٹ کے طور پر حمید ہارون کا نام لیا تھا۔
حمید ہارون نے اپنے جواب میں بیان جاری کرتے ہوئے ریپ کے الزامات کو بالکل مسترد کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہانی جھوٹی ہے اور اُن (لوگوں) کے ایما پر جان بوجھ کر گھڑی گئی جو مجھے خاموش کروانا چاہتے ہیں اور میرے ذریعے اس اخبار کو اپنے جابرانہ بیانیے کی حمایت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جس کی میں نمائندگی کرتا ہوں۔'
اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 'وہ قانونی کارروائی کریں گے۔'
یہ بھی پڑھیں: ڈان اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ
چار صفحات پر مشتمل قانون نوٹس جامی کے کراچی کے دفتر کے پتے پر بھجوایا گیا جس میں ان کی 20 اکتوبر کی ٹوئٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'اگرچہ بار بار اس طرح کے اشارے دیے گئے جن سے یہ شبہ ہوتا تھا کہ مبینہ ریپسٹ ہمارے موکل (حمید ہارون) تھے لیکن مبینہ ریپسٹ کا کبھی نام نہیں لیا گیا۔'
دسمبر میں ڈان میڈیا گروپ پر متعدد حملوں کا، جب ڈان میڈیا کے کراچی اور اسلام آباد کے دفاتر کا گھیراؤ کیا گیا، حوالہ دیتے ہوئے نوٹس میں کہا گیا کہ 'مشتعل ہجوم کے چند افراد کے پاس ہمارے موکل کی تصاویر اور پوسٹرز تھے، جو آپ کے ریپ کے جھوٹے الزامات کے خصوصی حوالے کے طور پر استعمال ہوئیں۔'
قانونی نوٹس میں کہا گیا کہ 'آپ کے مبینہ ریپ سے متعلق پہلے ٹوئٹ کے تقریباً دو ماہ بعد 28 دسمبر 2019 کو ٹوئٹر پر آپ نے ہمارے موکل پر مبینہ ریپسٹ ہونے کا جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی الزام لگایا۔'
نوٹس کے مطابق 'اس کے بعد سے آپ اس جھوٹے الزام کو کراچی اور دیگر شہروں سمیت مسلسل پاکستان بھر میں پھیلا رہے ہیں، ہمارے موکل اس بات کو یکسر مسترد کر چکے ہیں کہ وہ کبھی کسی پر جنسی تشدد کے مرتکب نہیں ہوئے اور آپ کو انہوں نے کبھی ریپ کا نشانہ نہیں بنایا۔'
قانونی نوٹس میں کہا گیا کہ 'جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی الزام، ریاست اور معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ہونے کے بہکاوے میں آکر ان کے ذاتی مفادات اور جابرانہ بیانیے کے فروغ کے لیے لگایا گیا جو ہمارے موکل کی ساکھ، بالخصوص آزادی صحافت کے لیے ممتاز طور پر آواز اٹھانے پر ان کی ساکھ کو تباہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔'
نوٹس میں الزام کو حمید ہارون کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے دیا جانے والا جھوٹا بیان قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'اس کا مقصد حمید ہارون کی تضحیک، ان پر ناجائز تنقید، ناپسندیدگی کا اظہار، توہین اور ان سے نفرت کا اظہار اور آزادی صحافت کو نشانہ بنانا ہے۔'
نوٹس کے مطابق اگر جامی 14 روز میں عوامی سطح پر غیر مشروط معافی نہیں مانگتے اور تمام سوشل میڈیا پوسٹوں اور دیگر میڈیا کے ذریعے لگایا جانے والا ریپ کا الزام واپس لینے کا بیان جاری نہیں کرتے، تو حمید ہارون ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499، ہتک عزت آرڈیننس 2002 اور دیگر متعلق قوانین کے تحت سول اور فوجداری قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔