• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

شہزاد اکبر کا شہباز شریف کے خلاف ثبوت منظر عام پر لانے کا عندیہ

شائع December 9, 2019
معاون خصوصی نے ایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر سے 18 سوالات پوچھے تھے—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
معاون خصوصی نے ایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر سے 18 سوالات پوچھے تھے—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے اعلان کیا ہے اگر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں کی گئیں ’غیر قانونی‘ تعیناتیوں کا جواب نہیں دیا تو اس کے شواہد عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل ہی انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر سے 18 سوالات پوچھے تھے، جس کے بعد اب انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ عوام جواب کی منتظر ہے۔

قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف پر طنز کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے ’دھیلے کی کرپشن کہانی‘ کے عنوان کے ساتھ ٹوئٹ کرتے ہوئے شہباز شریف سے کہا کہ قوم 18 سوالوں کے جواب کی منتظر ہے لیکن کم از کم ایک سوال کا جواب تو دے دیں۔

انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے نہ صرف نثار گل کو وزیراعلیٰ کے دفتر میں ڈائریکٹر (سیاسی امور) مقرر کیا بلکہ قواعد کے خلاف گزشتہ تاریخوں میں تعیناتی اور ترقی بھی نہیں؟

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر کا شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب دینے کا مطالبہ

سرکاری خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی نے الزام عائد کیا کہ نثار گل کی تعیناتی اس طرح اس لیے کی گئی کیونکہ وہ شریف خاندان کے اربوں روپے بیرونِ ملک منتقل کرنے کے انتہائی شاطر نیٹ ورک کی اہم شخصیت تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بدعنوانی نہیں کی لیکن انہوں نے اپنے معاونین کو گڈ نیچر ٹریڈنگ نامی جعلی کمپنی میں تعینات کیا، جس نے 200 جعلی ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹی) کے ذریعے 7 ارب روپے بیرونِ ملک بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے شریف خاندان کی کمپنی اتفاق گروپ سے بالکل الگ ایک بزنس ایمپائر کھڑا کیا گیا۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے شریف خاندان کی جانب سے منی لانڈرنگ کے لیے علی احمد کو ڈائریکٹر پالیسی وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کرکے اپنا فرنٹ مین بنایا۔

مزید پڑھیں: نیب کا شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ

مزید برآں 2 افراد شعیب قمر اور منصور انور بھی منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک میں ملوث ہیں جنہوں نے گڈ نیچر کمپنی کے اکاؤنٹس سے 2 ارب 10 کروڑ روپے نکالے اور جمع کروائے۔

انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ شہباز شریف کے اکاؤنٹس میں ایک کروڑ 60 لاکھ روپے جمع کروائے گئے جنہوں نے وہ رقم تہمینہ درانی کو منتقل کردی اور اس کے بعد وہی رقم وہسپرنگ پائن ولاز کی خریداری میں استعمال کی گئی۔

ذرائع کے مطابق انہی افراد نے گڈ نیچر کمپنی کے اکاؤنٹ سے ڈھائی کروڑ روپے نکلوانے کے بعد سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے اور اسی طرح کی رقم حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بھی جمع کروائی گئی جسے انہوں نے اپنی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا اور اسی رقم سے جوہر ٹاؤن میں جائیداد خریدی گئی۔

مذکورہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گڈ نیچر کمپنی سے 6 ارب 80 کروڑ روپے نکلوائے گئے جس میں سے 4 ارب 70 کروڑ روپے دوسری کمپنی کو دیے گئے اور ان جعلی کمپنیوں کا کنٹرول روم وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اشتہاری قرار

جس کے بعد نثار گل نے بینک اکاؤنٹ کھلواتے ہوئے بھی فارم میں اپنا عہدہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور لکھا اور اپنا پتہ بھی وزیراعلیٰ کا دفتر لکھوایا جبکہ نثار گل نے سلمان شہباز کے ہمراہ لندن، دبئی اور قطر کا دورہ کیا۔

تاہم بعد میں پنجاب کی قائم مقام حکومت نے دیگر افسران کے ساتھ نثار گل کو بھی معطل کردیا تھا جنہیں شہباز شریف نے سی ایم سیکریٹریٹ کے قواعد میں نرمی کر کے تعینات کیا تھا۔

ذرائع نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ سابق وزیراعلیٰ ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ پر رشوتیں اور کمیشن وصول کرتے تھے اور ماڈل ٹاؤن میں ایک دفتر میں ان کی بلیک منی منتقل کرنے کے لئے ان کی بلٹ پروف لینڈ کروزر اور پنجاب کی ایلیٹ فورس بھی استعمال ہوئی۔

اپنے 18 سوالات میں شہزاد اکبر نے 4 منی ایکسچینج کمپنیوں کا بھی پوچھا تھا جس میں الزرونی ایکسچینج کمپنی اور رامیس ٹیکس ایکسچینج بھی شامل ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر بھاری رقوم بیگم نصرت شہباز اور سلمان شہباز کو ٹی ٹیز کے ذریعے منتقل کیں۔


یہ خبر 9 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024