نواز شریف کا انجیو گرام کیلئے ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان
لندن: سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف آئندہ چند روز میں مزید ٹیسٹ کے لیے ہسپتال میں داخل ہوجائیں گے جس کے بعد ان کے عارضہ قلب کا علاج کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن برج ہسپتال کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان نے کہا کہ نواز شریف نے پروفیسر سائمن ریڈوڈ سے ملاقات کی جو عارضہ قلب کے ماہر ہیں۔
خیال رہے کہ پروفیسر ریڈوڈ امراض قلب کے علاج کا 20 سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور این ایچ ایس فاؤنڈیشن کے گائز اینڈ سینٹ تھامس ہسپتال سے منسلک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میں سوئس ماہر امراض قلب کا نواز شریف کا معائنہ
ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ ’پروفیسر سائمن ریڈوڈ نے نواز شریف کا معائنہ کیا اور ان کے مرض کی ہسٹری کا تفصیلی جائزہ لیا اور انہوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سابق وزیراعظم کا انجیوگرام کرنے کے لیے انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انجیوگرام کے بعد ڈاکٹر دل کی بیماری اور دماغ کی شریان کے علاج کا طریقہ کار طے کریں گے لیکن اس سے پہلے ان کی قوت مدافعت کی خرابی کو درست کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کسی بھی سرجری سے قبل نواز شریف کی تھرومبوسائیٹیپینیا اور خون کے مسائل کو درست کرنا اہم ہے، انجیوگرام جمعرات کو ہوگا اور پی ای ٹی اسکین کے بعد ہی ہمیں خون کے مسئلے کے بارے میں صحیح معلومات ملیں گی اور مرض کی تشخیص ہوگی جس کے بعد ہی عارضہ قلب کا علاج ہوسکے گا‘۔
مزید پڑھیں: لندن میں نواز شریف کے مرض کی تشخیص کیلئے مختلف ٹیسٹ
واضح رہے کہ انجیو گرام ایک ایسی تکینک ہے جس کے ذریعے ڈاکٹرز شریانوں، وریدوں اور دل کے والو کا معائنہ کریں گے۔
انجیو گرام کا عمل بڑی حد تک محفوظ ہوتا ہے لیکن نواز شریف کے پلیٹلیٹس میں کمی اور عارضہ قلب کی ہسٹری اس میں پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
انجیو گرام کے عمل میں اگر کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو تو اس کے بعد ہسپتال میں کم از کم 6 گھنٹے داخل رہنا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف کے لندن پہنچنے کے بعد سے اب تک شریف خاندان متعدد ڈاکٹرز سے مشورے کرچکا ہے۔
اس کے علاوہ پیر کے روز مسلم لیگ (ن) کے قائد نے جج ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار ناصر بٹ سے بھی ملاقات کی تھی۔
نواز شریف کی خرابی صحت سے روانگی تک
واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کو صحت کی تشویشناک صورتحال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔
سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس نے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے مزید تفصیلات فرہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابلِ علاج ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔
بعدازاں شہباز شریف کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف نومبر ہسپتال سے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا منتقل ہوئے جہاں انہیں گھر میں قائم آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔
8 نومبر کو شہباز شریف وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا اور نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔
عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد 18 نومبر کو وزارت داخلہ نے نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔
جس کے بعد وہ 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے۔