5 جی سروسز باقاعدہ طور پر چین میں متعارف
چین میں باضابطہ طور پر 5 جی موبائل سروسز کو متعارف کرادیا گیا ہے بلکہ اس حوالے سے اس نے اہم اعزاز بھی اپنے نام کرلیا ہے۔
اس وقت امریکا، برطانیہ اور جنوبی کوریا میں 5 جی سروسز محدود مقامات پر صارفین کو دستیاب ہیں مگر چین نے اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کے سب سے بڑے 5 جی نیٹ والے ملک کا اعزاز اپنے نام کرلیا ہے۔
3 کمپنیوں چائنا موبائل، چائنا یونی کام اور چائنا ٹیلی کام کی جانب سے 5 جی سروسز کو صارفین کے لیے متعارف کرایا گیا ہے اور 30 جی بی ڈیٹا 128 یوآن (28 سو پاکستانی روپے) جبکہ 300 جی بی ڈیٹا 599 یوآن (13 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) میں صارفین کو دستیاب ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 4 جی انٹرنیٹ کے ڈیٹا پلان کی قیمتیں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں تو نئی نسل کے نیٹ ورک کو عام صارفین بھی استعمال کرسکیں گے۔
چونکہ چین کی 3 بڑی موبائل آپریٹر کمپنیوں نے 5 جی سروسز کو متعارف کرایا ہے تو ملک بھر میں 86 ہزار بیس اسٹیشنز کی تنصیب ہوئی ہے اور 50 اہم ترین شہروں جیسے بیجنگ، شنگھائی اور دیگر میں یہ سروس صارفین کے لیے دستیاب ہوگی۔
چین میں 5 جی سروسز کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ایک کروڑ سے زائد افراد نے موبائل آپریٹرز میں اس کے حصول کے لیے رجسٹریشن کرائی ہوئی تھی۔
اسی طرح ہواوے نے میٹ 30 فائیو جی اسمارٹ فون کے ایک لاکھ یونٹس محض ایک منٹ میں فروخت کردیئے تھے جس سے بھی صارفین کی اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔
چینی حکومت کو توقع ہے کہ 2020 تک 11 کروڑ سے زائد افراد فائیو جی نیٹ ورک کو استعمال کرنے لگیں گے۔
فائیو جی کی رفتار کیا ہوگی؟
گزشتہ سال اس کی آزمائش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ فائیو جی نیٹ ورک موجودہ موبائل انٹرنیٹ کنکشن سے سوگنا جبکہ گھروں کے براڈ بینڈ کنکشن سے دس گنا تیز ہوگا۔ گزشتہ سال موبائل ورلڈ کانگریس میں سام سنگ نے فائیو جی ہوم روٹر کو پیش کیا تھا جس کی رفتار 4 گیگابائٹس فی سیکنڈ تھی، یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے 500 میگا بٹس فی سیکنڈ، جس کی مدد سے پچاس جی بی کی فائل صرف دو منٹ جبکہ سو جی بی کی فلم چار منٹ میں ڈا?ن لوڈ کی جاسکتی ہے۔
اس وقت امریکا میں انٹرنیٹ کی اوسط رفتار صرف 55 میگا بٹ فی سیکنڈ ہے۔ تاہم جب فائیو جی ٹیکنالوجی صحیح معنوں میں سامنے آئے گی تو درست اندازہ ہوگا کہ اس کی اوسط رفتار مختلف رکاوٹوں یا لوگوں کے ہجوم کے دوران کیا ہوگی تاہم پھر بھی فور جی ایل ٹی ای سے کئی گنا زیادہ تیز ضرور ہوگی، یعنی اگر پچاس فیصد کم بھی ہوتی تو بھی گھریلو انٹرنیٹ کی رفتار 2 گیگا بائٹس فی سیکنڈ ہوگی جبکہ ایک گیگابائٹ فی سیکنڈ بھی موجودہ تناظر میں زبردست ہی قرار دی جاسکتی ہے۔