اسرائیل نے معروف فلسطینی قانون ساز کو دوبارہ گرفتار کرلیا
اسرائیلی فورسز نے بائیں بازو کی تنظیم سے تعلق کے الزام میں بغیر ٹرائل کے 20 ماہ تک قید کے بعد فروری میں رہا ہونے والی معروف فلسطینی قانون ساز خالدہ جرار کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق خالدہ جرار کی بیٹی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اطلاع دی کہ 'میری والدہ کو رام اللہ میں ہماری رہائش گاہ سے رات کے تقریباً 3 بجے گرفتار کرلیا گیا ہے'۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کی گرفتاریوں کے احکامات جاری کرنے والی اسرائیل کی 'شن بیت' سیکیورٹی سروس کی ترجمان سے فوری طور پر رائے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔
56 سالہ خالدہ جرار کو اس سے قبل 2 جولائی 2017 کو پاپولر فرنٹ فور دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) کا سینئر رکن ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو کا وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان
امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس نے مغربی کنارے سے گزشتہ رات 'دہشت گردی کے الزامات' پر متعدد گرفتاریاں کی ہیں'۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ فوج نے زیر حراست افراد کی شناخت بتانے سے انکار کردیا ہے جبکہ شن بیت سیکیورٹی نے بھی معاملے پر رائے دینے سے انکار کیا۔
واضح رہے کہ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین نے 'پی ایف ایل پی' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
رام اللہ کے فلسطینی قیدی کلب نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ پی ایف ایل پی کے معروف رکن مصنف علی جرادت سمیت دیگر 10 افراد کو بھی راتوں رات گرفتار کیا گیا۔
سینئر فلسطینی عہدیدار حنان اشروی نے گرفتاریوں کی مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم رات کے وقت رام اللہ، بیت لحم اور دیگر اسرائیلی قابض فلسطینی شہروں میں چھاپوں اور متعدد رضاکاروں جن میں 11 منتخب نمائندگان اور سیاسی رہنما خالدہ جرار شامل ہیں، کی گرفتاری کی سخت مذمت کرتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ ’عدم جارحیت‘ کے معاہدوں کا عندیہ
اسرائیلی قابض فورسز نے تیسری مرتبہ معروف انسان حقوق کی رضاکار خالدہ جرار کو حراست میں لیا ہے۔
خالدہ جرار طویل عرصے سے غیر فعال فلسطینی پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔
انہیں گزشتہ بار گرفتاری کے فوری بعد 6 ماہ کی انتظامی حراست کے آرڈر پر بھیج دیا گیا تھا جس میں متعدد بار توسیع بھی کی گئی تھی۔
اسرائیل کی انتظامی حراست کے آرڈر کے تحت مشتبہ افراد کو بغیر کسی الزامات کے 6 ماہ کے لیے حراست میں لیا جاسکتا ہے جو قابل توسیع ہوتا ہے۔
اس سے قبل انہیں دسمبر 2015 میں اسرائیل کی فوجی عدالت نے اسرائیل پر حملوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور سفری پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں 15 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں انہیں سزا پوری ہونے سے ایک ماہ پہلے ہی رہا کردیا گیا تھا۔