لوگ ایسے گھورتے ہیں جیسے وہ لباس پھاڑ کر سب کچھ دیکھ رہے ہوں، میا خلیفہ
قابل اعتراض اور فحش مناظر فلم بند کروانے والی سابق اداکارہ، سوشل میڈیا اسٹار اور اسپورٹس اینکر میا خلیفہ نے گزشتہ ماہ 15 اگست کو ایک انٹرویو کے دوران پہلی مرتبہ پورن انڈسٹری کے حوالے سے کھل کر بات کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔
میا خلیفہ کا کہنا تھا کہ پورن انڈسٹری میں لڑکیاں مجبوری کے تحت آتی ہیں اور ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ایسی فلمیں بنانے والے ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ وہ مجبوری کے تحت فحش فلموں میں گئیں اور اب تک انہیں اپنے ماضی پر شرمندگی ہے۔
انہوں نے انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ انہوں نے پورن فلموں میں کام کرنے سے محض 12 ہزار امریکی ڈالر یعنی پاکستانی لگ بھگ 15 لاکھ روپے کمائے۔
انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا تھا کہ فحش فلموں میں کام کرنے والی اداکاراؤں کو کثیر رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
اور اب انہوں نے اپنے ماضی اور حال کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ پورن انڈسٹری کو چھوڑے جانے کے باوجود آج تک انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں بات کرتے ہوئے میا خلیفہ کا کہنا تھا کہ انہیں انڈسٹری چھوڑے ہوئے 4 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا لیکن اب بھی ان کا نام اسی انڈسٹری سے جوڑا جاتا ہے اور انہیں ماضی جیسا ہی سمجھا جاتا ہے۔
میا خلیفہ کے مطابق انہیں شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہر انسان سے زندگی میں کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی کبھی بھی معافی نہیں ملتی اور شاید ان سے ایسی ہی ایک غلطی ہوگئی۔
اداکارہ و سوشل میڈیا اسٹار نے بتایا کہ فحش انڈسٹری میں کام کرنے کے بعد جہاں انہیں اپنے اہل خانہ نے دور کرتے ہوئے لاتعلقی کا اظہار کیا، وہیں انہیں سماج میں بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
میا خلیفہ نے کہا کہ انہیں آج بھی لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ ان کا لباس پھاڑ کر ان کے پورے جسم کو دیکھیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ایسے رویے کی وجہ سے انہیں سخت ذہنی اذیت اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے اپنے ماضی سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ گریجویشن کے بعد پورن انڈسٹری میں آئیں اور ایک شخص نے انہیں ماڈلنگ کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کرلی۔
میا خلیفہ کے مطابق انہیں ماڈلنگ کی پیش کش کرنے والے شخص نے پہلی بار انہیں نہیں بتایا تھا کہ وہ فحش فلموں کے لیے انہیں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ اس شخص کے ساتھ امریکی ریاست میامی کے ایک اسٹوڈیو میں گئیں تو وہاں ہر چیز انتہائی صاف ستھری تھی اور ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا، کسی طرح بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہاں کچھ برہنہ ماڈلنگ بھی ہوتی ہے۔
میا خلیفہ کے مطابق انہیں اسٹوڈیو میں جا کر پتہ چلا کہ انہیں پورن ماڈلنگ کے لیے کاسٹ کیا گیا ہے اور پھر جب انہوں نے پہلی بار ماڈلنگ کی تو انہیں دوسری بار بھی وہی ماڈلنگ کرنے کی پیش کش کی گئی اور پھر ان سے معاہدہ کیا گیا۔
میا خلیفہ نے بتایا کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا جب وہ لبنان سے تاریخ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا منتقل ہوئی تھیں اور گریجویشن کے پہلے ہی سال میں ان کے جسمانی خدوخال بے حد تبدیل ہوئے۔
ان کے مطابق وہ بچپن سے ہی بھاری بھر کم تھیں اور اضافی وزن ہونے کی وجہ سے وہ مخالف جنس کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی تھیں، تاہم امریکا میں آتے ہی ان کا وزن کم ہونے لگا اور وہ پرکشش ہوگئیں۔
انہوں نے پورن انڈسٹری میں کام کرنے کو اپنی سب سے بڑی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انہیں وہ انڈسٹری چھوڑے ہوئے بھی 4 سال ہوگئے لیکن لوگ اب بھی ان کا تعلق فحش انڈسٹری سے جوڑ دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ لبنان سے تعلق رکھنے والے کیتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والی میا خلیفہ انتہائی کم عمری میں اہل خانہ سمیت امریکا منتقل ہوگئی تھیں، جہاں انہوں نے 2014 کے اختتام اور 2015 کے آغاز کے دوران چند ماہ تک فحش فلموں میں کام کیا تھا۔
فحش فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے انہیں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے دھمکیاں بھی دی گئیں، جس کے بعد انہوں نے انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا۔
چند ماہ تک پورن انڈسٹری میں کام کرنے والی میا خلیفہ انتہائی کم وقت میں دنیا بھر میں اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مشہور ہوگئی تھیں جبکہ انہیں اس انڈسٹری کی نمبر ون اداکارہ بھی قرار دیا گیا تھا۔