خواتین کو آن لائن ہراساں، بلیک میل کرنے کے مختلف مقدمات میں 3 ملزمان گرفتار
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کہا ہے کہ اس کے سائبر کرائم یونٹ نے لاہور میں ایک غیر ملکی سمیت 3 خواتین کو ہراساں اور بلیک میل کرنے والے 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
ایجنسی کی جانب سے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت 3 علیحدہ مقدمات بھی درج کیے گئے جبکہ ایف آئی اے حکام نے موبائل فون سمیت ڈیجیٹل سامان بھی برآمد کرلیا، جو مبینہ طور پر ان جرائم میں استعمال کیا گیا۔
اس ضمن میں ایف آئی اے، سی سی آر سی لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری سرفراز نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ایک شکایت ایک شخص کی جانب سے دائر کی گئی کہ ان کی بہن کو کچھ قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز کی بنیاد پر بلیک میل اور ہراساں کیا جارہا تھا۔
مذکورہ شخص نے اپنی درخواست میں گوجرانوالہ کے رہائشی ایک ملزم کو بھی نامزد کیا تھا۔
مزید پڑھیں: فیس بک،ٹوئٹر سائبر کرائم کی شکایات میں تعاون نہیں کررہے، ایف آئی اے
بعدازاں ایجنسی کی جانب سے چھاپہ مار کر قابل اعتراض مواد اور درخواست گزار کی بہن کی اس مبینہ جعلی فیس بک آئی ڈی پر مشتمل موبائل کو قبضے میں لیا گیا، جس کے ذریعے اس مواد کی تشہیر کی جارہی تھی۔
مبینہ مواد کی برآمدگی اور ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد ملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور برآمد ہونے والے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل میڈیا کے سامان کو ایف آئی اے نے قبضے میں لے لیا۔
ادھر ایک اور کیس میں ایک خاتون نے تحقیقاتی ایجنسی تک رسائی حاصل کی اور سرگودھا کے رہائشی شخص کی جانب سے بلیک میل اور ہراساں کرنے کی شکایات درج کروائی۔
جس پر گزشتہ روز ایف آئی اے کی ٹیم نے کارروائی کی اور قابل اعتراض مواد اور اس موبائل فون کو برآمد کرلیا، جس کے ذریعے ملزم اس مواد کو شکایت کنندہ کے رشتے داروں کو بھیج رہا تھا۔
ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'مبینہ مواد کی برآمدگی اور ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد ملزم کو گرفتار کرلیا اور برآمد ہونے والے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل میڈیا کے سامان کو ایف آئی اے نے قبضے میں لے لیا'۔
علاوہ ازیں تیسرے کیس میں ملائیشین شہریت رکھنے والی خاتون نے سفارتی ذرائع کے ذریعے ایجنسی تک رسائی حاصل کی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے، بلیک میلنگ کرنے اور ان کے اہل خانہ کی ایڈیٹڈ تصاویر کو پھیلانے پر ایک شخص کے خلاف شکایات درج کروائیں۔
اس پر ایف آئی اے کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کی گئیں اور نامزد ملزم کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا گیا، ساتھ ہی ایف آئی اے نے قابل اعتراض مواد اور مبینہ واٹس ایپ پر مشتمل اس موبائل فون کو برآمد کرلیا، جس کے ذریعے یہ مواد منتقل کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کے مطابق 'ان تینوں کیسز میں مزید تحقیقات جاری ہیں، جس کے مطابق ہی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا'۔
خیال رہے کہ اپریل میں تحقیقاتی ایجنسی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کو بتایا تھا کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے عدم تعاون پر مبنی ردعمل، ایجنسی کے لیے سائبر کرائم کی شکایات کا حل مشکل بنا دیتا ہے۔
ایک ایف آئی اے افسر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ گزشتہ 2 برس میں ادارے کو سوشل میڈیا سے متعلق 29 ہزار 577 شکایات موصول ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'سائبر کرائم کی رپورٹس میں ریکارڈ اضافہ'
انہوں نے کہا تھا کہ ان تمام شکایات میں سے 9 ہزار 822 جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق تھیں، جن میں سے 8 ہزار 723 شکایات کو ایسے اکاؤنٹس بند کرکے حل کیا گیا۔
قائمہ کمیٹی کو عہدیدار نے بتایا تھا کہ سائبر کرائم یونٹ کو 34 ہزار 846 ویب پیجز کے خلاف شکایات موصول ہوئیں، جس میں سے 28 ہزار 460 کے خلاف ایکشن لیا گیا اور انہیں بند کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگست 2016 سے انہیں فیس بک سے متعلق 15 ہزار 433، ٹوئٹر سے متعلق 6 ہزار 67 اور واٹس ایپ سے متعلق 3 ہزار 143 شکایات موصول ہوئیں، جن میں تمام پر کام جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کے تحفظات سے متعلق فیس بک اور ٹوئٹر کا ردعمل 'بہتر نہیں' ہے، جس کی وجہ سے شکایات کے حل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔