اسلام آباد: علما نے منظور شدہ خطبات، بیک وقت اذان کی مخالفت کردی
اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر دارالحکومت کی تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں جمعہ کا تحریر یا منظور شدہ خطبہ دینے اور ایک ہی وقت میں اذان دینے کی کوشش کی گئی لیکن علما نے اس کی مخالفت کردی۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر آصف رحیم سمیت انتظامیہ کے افسران نے مختلف مکاتب فکر کے علما سے ملاقات کی اور منظور شدہ خطبات اور اذان سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا مقصد تمام عبادت گاہوں میں دیے جانے والے خطبات کا معیار مقرر کرنا تھا، علما کو بتایا گیا کہ تحریری یا منظور شدہ خطبات دارالحکومت میں مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھیں گے اور مذہبی منافرت سے بچائیں گے۔
مزید پڑھیں: رمضان المبارک میں جمعہ کے خطبات کی نگرانی کا فیصلہ
تاہم حکام کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اجلاس میں علما کو راضی کرنے میں ناکام ہوگئی اور تحریری خطبات دینے کے مشوری کی بڑے پیمانے پر مخالفت سامنے آئی۔
انہوں نے بتایا کہ علما نے اپنے خطبات کو ممکنہ طور پر انتظامیہ سے منظور کروانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
علما کو رضامند کرنے میں ناکامی کے بعد انتظامیہ نے ان سے منظور شدہ موضوعات پر خطبات دینے کو کہا، جس پر وہ راضی ہوگئے، اس کے بعد علما کو مذکورہ موضوعات بھی دیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل انتظامیہ نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے رابطہ کیا اور اس معاملے میں مدد طلب کی، جامعہ کی جانب سے 35 موضوعات تجویز کیے گئے جس میں اسلام کے 5ستون، انبیا کرام، اہل بیت اور بنیادی حقوق شامل ہیں جبکہ ان موضوعات کو سیکڑوں ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب علما نے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ہی وقت اذان کی درخواست کی مخالفت کردی کیونکہ کچھ نمازوں کے لیے مختلف مکاتب فکر کے مختلف اوقات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خطبات جمعہ کے موضوعات،قواعد و ضوابط کی تیاری کیلئے کمیٹی تشکیل
علاوہ ازیں حکام نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے علما سے کہا گیا کہ تمام عبادت گاہوں اور مدارس کو جلد از جلد ڈائریکٹریٹ آف انڈسٹریز اینڈ لیبرز کے پاس رجسٹر کروائی، ایک مرتبہ یہ عمل مکمل ہوگیا تو انتظامیہ تمام سرگرمیوں کی نگرانی کرسکے گی، جس میں عطیات اور فنڈز کی وصولی اور اخراجات کی تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔
اس پر علما نے انتظامیہ کو بتایا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے معاملے پر اندرونی طور پر تبادلہ خیال کریں گے اور مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے، جس کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کردیا جائے گا۔