تجربے نے افغانستان کو شکست اور پاکستان کو جیت سے نواز دیا
ہمارے دکھ سانجھے ہیں اور دنیا میں دکھ سے بڑی کوئی سانجھ نہیں۔ مشترکہ میراث ہی دکھ ہے۔ روس معلوم نہیں کن گرم پانیوں کی تلاش میں آیا تھا، مگر ہمیں زندگی کی گرمی کی جگہ آتش و آہن کی آگ دے گیا۔
خون اور آگ کا وہ دریا جس میں ہماری برف پوش چوٹیوں سے پگھلنے والا پانی ہی نہیں دو نسلوں کے خواب لاوا بن کر شامل ہوگئے۔ جن میدانوں میں گھاس اگتی تھی وہاں بارود اگنے لگا۔ ہمارے بچے جس کو کھلونا سمجھے وہ بارود کا گولہ نکلا۔ پشاور سے لے کر کابل تک اور قندھار سے لے کر کوئٹہ تک بیساکھیوں کی صنعت سب سے بڑی صنعت بن گئی۔ لکڑی کے وہ کارخانے جنہوں نے دنیا کا بہترین فرنیچر بنانا تھا وہاں مصنوعی ہاتھوں اور ٹانگوں کے سانچوں نے باقی ہر شے سے زیادہ جگہ لے لی۔
زندگی کا ہر عنوان ہی بدل گیا۔ کھلے میدانوں میں رہنے والے غیور لوگوں کی زندگی چند گز کے کیمپوں تک محدود ہوگئی۔ بھیڑ بکریاں پالنے والے خود بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے گئے۔ فصلِ گل تو جانے کس خزاں کی نذر ہوگئی یہاں لاشوں پر پھول تو کیا رکھنے تھے لاشوں کے لیے غسل کا پانی بھی نا پید ہوگیا۔ اب کڑواہٹ ہے، غصہ ہے سچ کہیں تو نفرت بھی۔
مزید پڑھیے: افغانستان کے خلاف عمدہ باؤلنگ، شاہین آفریدی نے نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا
او ہیلو ایک منٹ۔ یہی رک جاو، یہ مضمون تو کھیل پر لکھنا تھا اور آپ نے یہاں بھی سیاست شروع کردی؟
برِصغیر کا نصیب ہی ایسا ہے کہ یہاں کھیل بھی سیاست ہے۔ پھر جہاں کھیل ہی رابطے کا واحد ذریعہ رہ جائے وہاں باقی معاملات کی پیغام رسانی بھی اسی کے ذریعے ہوگی۔
لیکن کل جو کھیل کے میدان میں ہوا وہ بہت عمدہ تھا۔ ایک ٹیم جو لمبے عرصے سے بڑی ٹیموں کو گرانے کی تگ و دو میں مصروف ہے کل بھی خود سے کہیں مضبوط ٹیم کو تقریباً شکست دینے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ یہ میچ یکطرفہ نہیں ہوا اس کی خوشی تھی، مگر جو کچھ تماشائیوں کے بیچ چلتا رہا اور جو کچھ اسٹیڈیم کے باہر ہوا، یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔
لیکن اصل مسئلہ عوام قطعاً نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ وہ عمائدین ہیں جنہیں اچھے معاشروں میں شاید کوئی چائے کا کپ نہ پلائے لیکن برِصغیر کے عصبیت زدہ معاشرے میں وہ بڑے عہدوں پر فائز ہوچکے۔ موجودہ نفرت کی لہر کو ہوا دینے والے افغان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو اس کی عمدہ مثال ہیں۔
خیر چھوڑو، آؤ میچ پر بات کرتے ہیں۔
افغانستان نے پاکستان کے خلاف اہم ترین میچ میں ایک اہم ٹاس جیتا۔ جب سے برطانیہ میں موسم بدلا ہے دھوپ زیادہ نکلنے لگی ہے اور یوں ٹاس بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں جہاں 350 اور حتیٰ کہ 400 رنز کی باتیں ہو رہی تھیں، اب وہاں 300 بلکہ 250 رنز بھی اچھا اسکور لگنے لگا ہے۔ ایسے میں بہتری یہی ہے کہ ٹاس جیتو اور پہلے بیٹنگ کرکے جتنا ہوسکے مخالف ٹیم پر دباؤ بڑھاو۔ پھر افغانستان کے پاس تو ویسے بھی سب سے بڑا ہتھیار ان کے اسپنرز تھے۔
افغانستان کے لیے یہ ٹاس جیتنا ایک نعمت غیر مترقبہ سے کسی صورت کم نہیں تھا۔ یہ بات خاص طور سے محسوس ہوئی کہ دونوں ٹیمیں اعصاب زدہ تھیں۔ کھیل کے ایک محب کے لیے یہ چیز بہت تکلیف دہ ہے۔ ایک چھکے کا جواب آپ اچھا یارکر یا باؤنسر مار کر دے سکتے ہیں، لیکن کل جو اعصاب زدگی دیکھنے میں آئی اس کا حل کسی کھلاڑی کے پاس نہیں تھا۔ عجب طرح کی سراسیمگی تھی۔ جو میدان میں موجود 22 انسانوں کے حواس کو اپنے قابو میں کیے ہوئی تھی۔
افغان ٹیم کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ ایک تو ورلڈکپ میں ان کا کوئی اسٹیک نہیں تھا۔ واحد اسٹیک جو ان کا باقی ہے وہ ایک میچ جیتنا ہے لیکن اس میں بھی انہیں سہولت تھی کہ وہ اپنے سے بڑی ٹیموں کے خلاف کھیل رہے تھے۔ ایسے میں اگر وہ کامیابی حاصل نہ بھی کرسکی تب بھی ان پر اعتراض نہیں اٹھتا۔ انہیں تو صرف اچھا کھیل پیش کرنا تھا، اپنی قابلیت کا جوہر دکھانا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ تمام تر دباؤ کے باوجود وہ اس میں کامیاب رہے۔
شروع سے ہی انہوں نے اٹیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ رحمت شاہ جو بالکل 'اولڈ اسکول آف تھاٹ' سے تعلق رکھتے ہیں۔ 90ء کی دہائی جیسی بیٹنگ اور غیر ضروری شاٹس سے پرہیز کرتے ہیں، لیکن انہیں بھی کل اٹیکنگ کرکٹ کھیلتے دیکھا گیا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ اسی طرح اصغر افغان بھی اپنے نیچرل کھیل کے بجائے دھواں دھار شاٹس لگاتے نظر آئے۔ کھیل کے ابتدائی چند اوورز کے بعد ہی یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ اس پچ پر 220 رنز بھی دفاع کے لیے بہت زیادہ ہوجائیں گے۔
مجھے لگتا ہے کہ افغان کیمپ کو اس صورتحال کا درست ادراک کافی دیر بعد ہوا اور جب تک انہیں اندازہ ہوا کافی دیر ہوچکی تھی۔ کم از کم اصغر افغان کی وکٹ گرنے تک انہیں پچ کے مشکل ہونے کا مکمل ادراک نہیں ہوسکا تھا۔ افغان ٹیم اگر جذبات کے بجائے دماغ سے کرکٹ کھیلتی تو وہ 15 سے 20 رنز باآسانی بنا سکتی تھی، اور اگر ایسا ہوجاتا تو مجھے یہاں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میچ کا نتیجہ پھر کیا ہوتا۔
پھر باؤلنگ میں پاکستانی باؤلرز سے بھی کچھ کم غلطیاں نہیں ہوئیں۔ کم از کم ابتدائی 25 اوورز تک کافی خراب گیندوں کا تحفہ دینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ اس پچ پر بال کو کہاں پھینکنا ہے اور کس طرح رنز کو روکنا ہے۔ کیونکہ 40 اوورز تک جب افغان ٹیم نے 184 رنز بنالیے تھے تو کمنٹیٹرز کے خیال میں اب 250 تک پہنچنا مشکل نہیں ہوگا، لیکن اس ٹیم کو 227 رنز تک روکنا یقیناً بڑا کام تھا۔
مزید پڑھیے: ورلڈ کپ: عماد نے بازی پلٹ دی، افغانستان کو شکست
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آپ ایک ابھرتی ہوئی ٹیم ہوں اور کھیل کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں جا رہے ہوں اور وہاں سب سے اہم فیصلے تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر کیے جا رہے ہوں۔
ممکن ہے پڑھنے والوں کی اکثریت کو یہ نہ معلوم ہو کہ اصغر افغان ٹیم کے مستقل کپتان تھے اور انہوں نے ہی افغانستان کو اس ورلڈ کپ میں شمولیت کا اہل بنایا تھا۔ جب ورلڈ کپ کوالیفائینگ ٹورنامنٹ چل رہا تھا تو اصغر افغان کے پیٹ کا آپریشن ہوا تھا۔ لیکن وہ ٹیم کے ساتھ ڈریسنگ روم میں ہی موجود تھے۔ شروع میں افغانستان کی چند شکستوں کی وجہ سے ٹورنامنٹ ان کے لیے ناک آؤٹ بن چکا تھا بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ وہاں بھی ’1992ء جیسے حالات تھے‘۔
امارات کی زمبابوے کے خلاف ایک کامیابی نے افغانستان کے لیے موقع پیدا کیا تو اصغر افغان نے پیٹ پر پٹی بندھی ہونے کے باوجود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس میچ میں مشکلات کی شکار افغان ٹیم کے لیے انہوں نے 40 کے قریب قیمتی رنز بھی جوڑے تھے۔ لیکن ناجانے ان تمام تر حالات کے باوجود ایسا کیا ہوا کہ افغانستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ سے عین پہلے انہیں کپتانی سے معزول کردیا اور گلبدین نائب کو کپتانی سونپ دی گئی، جی وہی گلبدین جنہوں نے کل پاکستان کو جتنے کے لیے 47واں اوور کیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ ان کی اس موجودہ افغان ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی، لیکن چونکہ اوپر سے فیصلہ ہوگیا تھا، تو کوئی کچھ نہ کہہ سکا۔
افغانستان نے دوسرا سیاسی فیصلہ محمد شہزاد کو گھر بھیج کر کیا۔ ان کی جگہ کھیلنے والے اکرام خیل نے پہلے بھارت کے خلاف میچ میں ٹیم کا نقصان کیا اور کل افغانستان نے انہیں اوپر بیٹنگ کے لیے بھیجا تو وہاں بھی انہوں نے اپنی ٹیم کے بجائے مخالف ٹیم کو ہی فائدہ پہنچایا۔ حالانکہ سمیع اللہ شنواری جیسا مستند بلے باز موجود تھا جنہیں بہت دیر سے بھیجا گیا نتیجتاً ٹیم کا مزید نقصان ہوا۔
پاکستان نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا۔ آف اسپنر کے خلاف فخر زمان کی حالت وہی ہے جو محمد حفیظ کے خلاف دیگر بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ اس ورلڈکپ میں پہلے معین علی نے بھی یہی ثابت کیا تھا لیکن اس پر مہر کل مجیب نے لگائی۔ یاد رہے کہ فخر افغانستان کے خلاف 2 مرتبہ میدان میں اترے ہیں اور دونوں مرتبہ ہی مجیب نے انہیں صفر پر آؤٹ کردیا۔
اس ابتدائی نقصان کے باوجود امید تھی کہ بابر اور امام اس پچ پر اچھا کھیل پیش کریں گے، کیونکہ رن ریٹ کا کوئی ایشو نہیں تھا اور حالات دونوں کھلاڑیوں کی طبیعت کے عین مطابق تھے۔ لیکن چونکہ دونوں پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کررہے ہیں لہٰذا بے چینی اس کا حصہ ہے۔ امام الحق نے جس طرح کا غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیل کر وکٹ گنوائی ہے، اگر کوئی مضبوط کپتان ہوتا تو کم از کم بھی انہیں کان پکڑوا دیتا۔ امام کو سوچنا ہوگا کہ انہیں انضمام کا نام اونچا کرنا ہے یا مسلسل اس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے دوسرا عمران فرحت بننا ہے۔ (جن کے سسر سلیکٹر محمد الیاس تھے)۔
بابر اعظم کو جب ہم راہول ڈریوڈ یا ویرات کوہلی سے سیکھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہڈیوں میں سکون اترتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن بابر اعظم ہمارے سارے اعضائے رئیسہ کی ورزش کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کل دل کی دھڑکن کی باری تھی۔ اس لینتھ پر پھینکی ہوئی گیند کو سوئپ کرنے کا فیصلہ کم از کم ان جیسے معیاری کھلاڑی کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔
محمد حفیظ کا کیرئیر 2 ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دور 2003ء سے لے کر 2010ء تک کا ہے، جس میں ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی کم تھا ایوریج بھی انتہائی کم۔ انہیں بلاشبہ پرچی ہی کہا جا سکتا تھا کیونکہ تب تک وہ پاکستانی معیار کے بلے باز بھی نہیں تھے۔ لیکن ان کا دوسرا دور جو 2010ء سے شروع ہوا، اس میں حفیظ ہمیں بدلے ہوئے نظر آئے۔ اسٹروک پلے شاندار ہوگیا۔ وکٹ پر ٹکنے کی صلاحیت دوگنا ہوگئی۔ پاکستان کو ایک بہترین ٹاپ آرڈر بلے باز مل گیا۔ اس دور میں حفیظ نے بہت ساری فتوحات پاکستان کی جھولی میں ڈالیں۔ تاہم کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ حفیظ بھائی کی شخصیت کا ایک تیسرا روپ بھی ہے۔ ایک ڈراؤنا روپ۔ اس ورلڈ کپ میں سیٹ ہونے کے بعد جس طرح وہ وکٹ تھرو کرتے نظر آئے ہیں، اس کی دوسری مثال کسی زمبابوین بلے باز میں ڈھونڈنا بھی نا ممکن ہے۔ اب قومی ٹیم کے لیے کنفرم ایک اور ممکنہ طور پر 3 میچ باقی ہیں۔ ہم حفیظ کو اچھے لفظوں میں رخصت کرنا چاہتے ہیں کاش وہ یہ بات سمجھ سکیں۔
حارث سہیل پر رات اتنا پریشر تھا کہ وہ کھیل کی بنیادی باتیں ہی نظر انداز کرگئے۔ گیند اتنا اسپن ہو رہا تھا اور موصوف بار بار کیریز میں پیچھے جا کر کھیل رہے تھے۔ اس حرکت سے ہر بال پر بس یہی ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی بال مس نہ ہوجائے، کیونکہ ایسا ہوتے ہی وہ یقینی طور پر ایل بی ڈبلیو ہوجاتے، لیکن بچتے بچاتے آخر ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔
بُرا ہو سابقہ کرکٹ بورڈ چیف کا جنہوں نے اسٹیو رکسن کو وقت پر پیسے نہیں دیے اور مجبوراً وہ ٹیم کو الوداع کہہ گئے۔ کیونکہ موجودہ کوچ کے آنے کے بعد سے تو جیسے فیلڈنگ بگڑتی ہی چلی جا رہی ہے۔ خود کپتان کی وکٹ کیپنگ انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ انہوں نے آسان چوکے تک چھوڑ دیے۔ تھرو پکڑتے وقت بعض اوقات وہ خود وکٹوں سے بھی آگے آجاتے ہیں۔ اس طرح کی بنیادی نوعیت کی اتنی خامیاں ان میں نظر آ رہی ہیں جو ایک نئے کلب کرکٹر کا خاصہ ہوتی ہیں۔ بیٹنگ کرتے وقت کپتان نے انتہائی مشکل وقت میں جس غیر ذمہ داری سے اپنی وکٹ گنوائی، وہ شرمناک سے کم نہیں ہے۔
لیکن خراب فیلڈنگ میں افغان ٹیم نے بھی ہمارا پورا ساتھ دیا۔ بہت سارے رنز انہوں نے بھی ہدیہ کیے۔ پاکستان کی فتح میں جہاں امپائرز کی مہربانیاں شامل تھیں، وہیں افغان فیلڈرز کا بھی پورا حصہ ہے۔ حمید حسن کی انجری نے بھی پاکستان کے لیے ماحول سازگار بنا دیا۔ ورنہ گلبدین نائب کو خود اتنے اوورز نا پھینکنے پڑتے۔ حسن ایک جارحانہ اور مکمل فاسٹ باؤلر ہیں اور اس پچ پر آخری اوورز میں ریورس سوئنگ بھی مل سکتا تھا تاہم گلبدین کی رفتار اس قابل نہیں تھی۔
ہر ہار کو جواز دینے کے لیے ایک ولن تلاش کیا جاتا ہے، کل کے میچ میں یہ ولن گلبدین نائب تھے۔ اگر قومی ٹیم کو شکست ہوجاتی تو فخر، حفیظ، سرفراز اور امام کی صورت بہت سارے ولن دستیاب ہوتے۔
مزید پڑھیے: افغان تماشائیوں کی ہنگامہ آرائی، آئی سی سی نے کارروائی کا فیصلہ کرلیا
افغانستان صرف فتح حاصل نہیں کرسکا ورنہ انہوں نے ہر ہدف حاصل کیا۔ وہ اچھا اور دلیری سے کھیلے، شروع کے چند اوورز چھوڑ کر وہ چوکنے نظر آئے، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ تجربے کا کوئی متبادل نہیں ہوتا تو بس یہی کمی ان کو لے ڈوبی۔
ضروری بات
آخر میں پاکستان کے ان 2 کھلاڑیوں کی بات ضرور کی جانی چاہیے جنہیں ہمیشہ نظر انداز یا کمتر سمجھتا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہاب ریاض کو خراج تحسین کے انہوں نے ٹوٹی ہوئی انگلی کے ساتھ یہ معرکہ انتہائی دلیری سے لڑا اور ٹوٹی ہوئی انگلی کے باوجود چھکے چوکے لگائے۔ لڑنے کا یہی حوصلہ کسی بھی کیمپ کی شان ہوتا ہے اور لڑائی میں فرق بھی انہی کے دم سے پڑتا ہے۔
دوسری توجہ عماد وسیم کی جانب بھی ہونی چاہیے۔ اپنے حصے کا کام وہ بخوبی کرتے ہیں۔ وکٹیں اگر نا بھی نکال سکیں تو رنز ضرور روکتے ہیں۔ بیٹنگ ان کی بونس ہے۔ گزشتہ کچھ میچوں میں جب بھی بیٹنگ پر دباؤ آیا اور عماد کی جانب نظریں جاتیں تو وہ آنکھیں چرا لیتے اور اپنی وکٹ گنوا دیتے تھے۔ لیکن کل انہوں نے پوری ذمہ داری لی۔ حالانکہ وہ پوری اننگ میں مشکل میں نظر آئے، لیکن انہوں نے دھونی کے فلسفے پر عمل کیا کہ اگر آپ میدان میں موجود ہیں تو کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ یہ سارا توازن کا معاملہ ہوتا ہے اگر آپ اپنا دماغی توازن برقرار رکھ سکیں تو ایک لمحہ آتا ہے جب فیصلہ کن مکا آپ مار سکتے ہیں، گلبدین کا اوور وہی موقع تھا۔ عماد نے کل ’نیور سے ڈائی اٹیٹیوڈ‘ کا عملی نمونہ پیش کیا۔
فتح ہر حال میں فتح ہوتی ہے، اس کے ثمرات بھی ہوتے ہیں اور یہ سکون بھی عطا کرتی ہے۔ پاکستانیوں کو یہ سکون مبارک ہو۔ اگلے 5 دن تک ہم کھیل کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ پائیلو کولہو نے لکھا تھا ’جب آپ کسی چیز کا ارادہ کرلیتے ہیں تو کائنات کی ساری چیزیں آپ کی مدد میں جت جاتی ہیں‘ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ انگلینڈ ہار رہا ہے سری لنکا ہار رہا ہے حتی کہ نیوزی لینڈ بھی اپنے 2 آخری میچ بُری طرح ہار گیا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں