جیت کے لیے ہمیں اپنے پاؤں زمین پر رکھنا ہوں گے، سرفراز
امید پر دنیا قائم ہے۔ امیدسے باہر کچھ بھی نہیں ۔ یہ امید ہی ہے کہ جو آپ کو مشکل سے مشکل کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم ورلڈ کپ کے اہم میچ میں روایتی حریف بھارت سے ہار گئے تو بھی ہماری امید نہیں ٹوٹی۔ ہمیں اپنی صلاحیت پر یقین تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ جب ہم اپنی صلاحیت کو کارکردگی میں تبدیل کریں گے تو ہم اس ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتے ہیں۔
ہم نے دو دن کا آف لیا اور دو دن کے بعد ہر چیز ایسی لگی کہ جیسے بحال ہو گئی ہو، ہمارے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز پرستاروں کی حمایت ہے، اگر لارڈز میں 80 فیصد سبزشرٹس اور پاکستانی جھنڈے نظر آرھے تھے توایجسبٹن میں یہ سو فیصد تھے، یہ مداحوں کی حمایت ہی ہے جو ہمیں حوصلہ دیتی ہے۔ وہ ایک اچھی فیلڈنگ ہو، ایک اچھا شاٹ یا ایک وکٹ ہو، جب اس کی کی تعریف ہو تو حوصلہ بڑھتا ہے۔ لہٰذا ہماری امید اور یقین کے علاوہ، اسٹینڈز سے آنے والی تالیاں اور نعروں کی صورت میں ہونے والی حمایت ہماری ان دو میچوں کی جیت میں ایک اہم عنصر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: ہارتے ہارتے ہم جیتنا کیسے شروع ہوگئے؟
جب ہم ایجبسٹن پہنچے تو گہرے بادل تھے اور تھوڑی تھوڑی بوندا باندی تھی۔ لیکن ہمیں میچ نہ ہونے کا کوئی خوف نہیں تھا۔ پیش گوئی واضح تھی کہ بارش نہیں ہو گی اورہم جانتے تھے کہ میچ مکمل ہو جائے گا۔
نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت لیا لیکن سکہ ہمارے حق میں گرتا تو میں بھی بیٹنگ ہی کرتا۔ ہم نے پچ کو اچھی طرح سے دیکھا تھا اور بنیادی خیال یہ تھا کہ نئی گیند کو گزارنا ہوگا، چاہے بیٹنگ کریں یا باؤلنگ۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہمیں مارٹن گپٹل کی ابتدائی وکٹ جلد مل گئی لیکن کین ولیمسن کی وکٹ اہم تھی۔ وہ سب سے بہتر فارم میں تھا اور خوب رنز بنا رہا تھا، لہٰذا جب شاداب خان نے اسےآؤٹ کیا تو ہم نے سوچا کہ ہم نیوزی لینڈ کو جلد آؤٹ کر لیں گے۔
لیکن جمی نیشم اور کولن ڈی گرینڈ ہوم نے زبردست بیٹنگ کی، انہوں نےا ننگز کے اختتام تک کھیلنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے آخری 10 اوورز میں 85 رنز بنائے کیونکہ ہم نےتھوڑی سی آف لینتھ باؤلنگ کی، ہم بہتر کام کر سکتے تھے اور انہیں 200 سے زائد اسکور نہ کرنے دیتے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم کرکٹ میں پیچھے کیوں رہ گئے؟
شاہین شاہ آفریدی نے شاندار باؤلنگ کی۔ وہ پہلے میچوں میں اتنا اچھا نہیں رہا تھا، لیکن اس کا ٹیمپرامنٹ اچھا ہے اور وہ ہمارے کمبی نیشن میں سیٹ ہے۔ ایک بار جب وہ وکٹ لینے لگے تو وہ مہلک ہو جاتا ہے اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایسا ہی ہوا۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شاہین ایک بہت اچھا باؤلر ہے اور آنے والے برسوں میں وہ پاکستان کو بہت سے میچ جتوا سکتا ہے۔
ہماری فیلڈنگ اچھی رہی۔ سلپ میں پہلے کیچ کے بعد سے ہم نے اپنے تمام کیچز پکڑے۔ فیلڈنگ ایسی چیز ہے جسے آپ کو لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہے لہٰذا آخری میچ کے بعد جس میں ہم نے بہت کیچز گرائے تھے ہمارے فیلڈنگ کوچ (گرانٹ بریڈبرن) نے ہمیں بتایا کہ ہمیں فیلڈنگ سے لطف اندوز ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ پیغام کھلاڑیوں کو دیا گیا۔ ایک میچ میں 300 گیندیں ہوتی ہیں لہذا ہمیں ان 300 گیندوں پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور اس چیز نے ہماری فیلڈنگ کو بہتر کیا۔
نیشم اور گرینڈہوم نیوزی لینڈ کو237 تک لے گئے۔ یہ ایک مشکل ہدف تھا۔ وقفہ پر ہم نے سوچا کہ یہ ہدف آسان نہیں ہوگا۔ ہم نے دو ابتدائی وکٹ جلد کھودیے لیکن پھر بابر اعظم اور محمد حفیظ نے اننگز کو مستحکم کیا۔ حفیظ کے بعد حارث سہیل نے بابر کو ایک اچھا اسٹینڈ دیا، میں سمجھتا ہوں کہ آج تک میں نے ہدف کے تعاقب میں اس سے بہتر اننگز نہیں دیکھی جو بابر نے کھیلی ۔
میں سمجھتا ہوں کہ بابر ہمارے دور کا بہترین کھلاڑی ہے، اس کی ایک کلاس ہے۔ وہ تکنیکی طور پر بہت درست ہے اور اسے سیٹ ہونے کے بعد آؤٹ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ نیوزی لینڈ کے بولنگ اٹیک کے خلاف اچھا کھیلا۔
مزید پڑھیں: روہت شرما کا متنازع آؤٹ، بھارتی شائقین کی انگلش امپائر کو بدنام کرنے کی کوشش ناکام
ایک بار پھر حارث نے زبردست بیٹنگ کی۔ اس نے نیوزی لینڈ کے باؤلرز پر شروع سے اٹیک کیا، میں بابر اور حارث کو اس لیے بھی زیادہ کریڈٹ دوں گا کیونکہ اس پچ پر کھیلنا آسان نہیں تھا۔
حارث بہت اچھا کھیل رہا ہے۔ بابر اور حارث ہمارے مڈل آرڈر میں ہیرے ہیں۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حارث اپنی باڈی لینگویج میں غیر متاثر کن ہے اور تھوڑا خوفزدہ بھی لگتا ہے لیکن یہ معاملہ نہیں ہے۔ اس کی ایک کلاس ہے اور اس طرح کے کھلاڑی بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ جب سے وہ ویسٹ انڈیز کے میچ کے بعد سے ڈراپ ہوا وہ اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے بے تاب تھا اور اس کی اس بات کا ہمیں بہت فائدہ ہوا۔
بھارت سے شکست کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے بات چیت کی اور اس میچ میں ہم نے جو غلطیاں کی تھیں ہم نے ان کی نشاندہی کی۔ ہم نے محسوس کیا کہ بھارت کے میچ میں تینوں شعبوں میں اچھی طرح سے نہیں کھیلے لہٰذا ہم نے ایک دوسرے سے بات کی اور مدد کی۔ اس ٹیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہر ایک نے ان دو میچوں کی جیت میں حصہ ڈالا اور اس ٹیم کے بارے میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہی ہے۔
اب ہماری توجہ افغانستان کے خلاف میچ پر ہے اور پھر ہم بنگلہ دیش کے بارے میں سوچیں گے۔ ایک مرتبہ جب ہم نے ان دو میچوں کو جیت لیا تو سیمی فائنل کے راستے خود ہی ہموار ہوجائیں گے۔ ہم ابھی وہاں تک کا نہیں سوچ رہے۔ افغانستان ایک خطرناک ٹیم ہے لہٰذا ہمیں ان کو شکست دینے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی ہوگی۔ ان کے پاس اعلیٰ معیار کے اسپنرز ہیں لہٰذا ہم ان کو آسان نہیں لیں گے اور اپنی پوری طاقت سے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بابر اعظم عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے
1992 ورلڈ کپ اور اب کی بار میں خاصی مماثلت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ وابستگی ہمارے عالمی کپ جیتنے تک جائے لیکن جیت کے لیے ہمیں اپنے پاؤں زمین پر رکھنا ہوں گے۔ ایک بار ہم اپنے باقی میچوں کو جیتیں تو اللہ تعالی خود سیمی فائنل کا راستہ بنا دے گا۔
ہماری امید زندہ ہے اور یہ سب سے حوصلہ افزا بات ہے۔ مجھے امید ہے کہ شائقین ہماری سپورٹ جاری رکھیں گے اور ہمارے لیے دعا کرتے رہیں گے۔
نوٹ: یہ بلاگ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے لکھا۔