1992اور 2019 ورلڈ کپ میں حیران کن مماثلت، ناقابل شکست نیوزی لینڈ پھر ہار گیا
پاکستان نے ورلڈ کپ میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح فتح و شکست کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ایونٹ میں ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو شکست دی۔
عالمی کپ کے ہر گزرتے میچ کے ساتھ ہی پاکستان کی 1992 کے ورلڈ کپ کی فتوحات و شکست کے ساتھ مماثلت ہر کسی کے لیے حیران کن ہے اور یہ چیز اس حد تک مماثلت رکھتی ہے کہ اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی اس چیز کو اہمیت دینا شروع کردی ہے۔
1992 میں چیمپیئن بننے والی پاکستانی ٹیم کو بھی اپنے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں یکطرفہ مقابلے کے بعد شکست ہوئی تھی اور اس مرتبہ پھر ایونٹ کا آغاز ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست کے ساتھ ہوا تھا۔
27سال قبل بھی پاکستان نے پہلے میچ میں شکست کے بعد دوسرا میچ جیتا اور تیسرا میچ بارش کی نذر ہوا اور یہی تسلسل اس مرتبہ بھی برقرار رہا۔
1992 کے عالمی کپ میں بھی گرین شرٹس کو چوتھے اور پانچویں میچ میں شکست ہوئی تھی اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس کے بعد قومی ٹیم نے ایونٹ میں واپسی کی اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔
1992میں پاکستان ٹیم جب اپنا چھٹا میچ جیتی تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین عامر سہیل تھے، اس بار جب ٹیم چھٹا میچ جیتی تو مین آف دی میچ لیفٹ آرم بیٹسمین حارث سہیل بن گئے۔
27سال قبل بھی پاکستان کی امیدیں آسٹریلیا سے وابستہ تھیں جس نے اس وقت ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی کی راہ ہموار کی تھی اور اس مرتبہ بھی آسٹریلیا نے میزبان انگلینڈ کو مات دے کر ان کی سیمی فائنل میں رسائی کی امیدوں کو بڑا دھچکا پہنچایا اور پاکستان کو فائدہ پہنچایا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 92میں بھی پاکستان کا سامنا کرنے سے قبل نیوزی لینڈ کوئی میچ نہیں ہارا تھا اور اس بار بھی کیویز ناقابل شکست تھے۔
یہ مماثلت اس حد تک حیران کن ہے کہ 1992 میں بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ بدھ کو کھیلا گیا تھا اور اس مرتبہ بھی پاکستان کا کیویز سے میچ بدھ کو کھیلا گیا اور قومی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر ناقابل شکست کیویز کو شکست کا مزہ چکھا دیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کی جانب سے 1992میں بھی دو وکٹیں جلد گرنے کے بعد رمیز راجہ نے سنچری اسکور کی تھی اور اس مرتبہ بابر اعظم نے سنچری بنا کر ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرایا۔
شائقین کرکٹ 1992اور 2019میں اس قدر یکسانیت دیکھنے کے بعد پر امید ہیں کہ پاکستان ٹیم کیلئے ورلڈ کپ کا نتیجہ بھی ویسا ہی ہو، جیسا 1992میں ہوا تھا اور قومی ٹیم چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کرے۔
تبصرے (2) بند ہیں