بڑے مقابلے سے پہلے بڑی شکست، ذمہ دار کون؟
ایک بار معروف تجزیہ کار این چیپل نے کہا تھا کہ اگر کامران اکمل کی بیٹنگ ڈان بریڈمین جیسی ہوتی تب بھی وہ اتنے رنز نہیں بنا پاتے جتنے وہ اپنی وکٹ کیپنگ کی بدولت دے دیتے ہیں۔ کامران اکمل تو خیر ماضی کا قصہ بن گئے ہیں لیکن یہ جملہ آج بھی پاکستان کی فیلڈنگ پر اتنا ہی صادق آتا ہے جتنا 2011ء میں تھا۔
ورلڈ کپ کے ابتدائی 3 مقابلوں میں سے ایک میں بدترین شکست، ایک میں ناقابلِ یقین کامیابی اور ایک بارش کی نذر ہوجانے کے بعد آسٹریلیا کے خلاف میچ پاکستان کے لیے بہت اہم بھی تھا اور بڑا امتحان بھی۔ انگلینڈ کو زبردست شکست دینے کے بعد یہاں کامیابی روایتی حریف بھارت کے خلاف اہم ترین میچ سے پہلے پاکستان کے حوصلوں کو بہت بڑھا دیتی لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا۔
جی ہاں! یہ بدقسمتی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ جہاں پاکستان کی 41 رنز سے شکست میں فیلڈروں اور بلے بازوں کی نااہلی کا اہم کردار تھا وہیں قسمت بھی ایک اہم ترین عنصر تھا۔ ابتدائی 20 اوورز کی اننگز میں آسٹریلیا نے ویسے تو بغیر کسی نقصان کے 122 رنز بنائے لیکن اُن کے بلے باز کتنی بار بال بال بچے؟ اس کا شمار کرنا شاید ممکن نہیں۔
محمد عامر اور وہاب ریاض کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے جب آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی دال نہیں گل رہی تھی تب پاکستانی فیلڈروں اور دیگر باؤلروں نے رنگ میں خوب بھنگ ڈالا۔ عامر کے 10 اوورز میں 30 رنز اور وہاب ریاض کے 8 اوورز میں 44 رنز کے مقابلے میں شاہین آفریدی اور حسن علی نےاپنے 20 اوورز میں 137 جبکہ عماد وسیم اور شاداب خان کی عدم موجودگی میں اسپنرز کی ذمہ داریاں نبھانے والے تجربہ کار شعیب ملک اور محمد حفیظ نے اپنے 11 اوورز میں 86 رنز دیے۔
غالباً یہ 11 اوورز ہی تھے جو پاکستان کو بہت مہنگے پڑگئے کیونکہ پاکستان پچ کی سبز رنگت دیکھ کر4 فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترا تھا، یعنی بغیر پانچویں باؤلر کے۔ اس پر طرّہ یہ کہ ٹاس جیت کر خود باؤلنگ کا فیصلہ کیا جبکہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ہدف کے تعاقب میں پاکستان کا کیا حال ہوتا ہے؟ پھر جو کسر رہ گئی تھی وہ فیلڈروں نے پوری کردی کہ جنہوں نے پہلے آسٹریلوی کپتان ایرون فنچ کا کیچ چھوڑا جو 26 رنز پر زندگی ملنے کے بعد 82 رنز کی شاندار اننگز کھیل گئے جبکہ ڈیوڈ وارنر کو بھی ایک موقع ملا گو کہ تب تک وہ اپنی قسمت کے بل بوتے پر کافی آگے نکل چکے تھے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے فیلڈروں نے کیچ کے 3 اور رن آؤٹ کا ایک موقع ضائع کیا۔
ذرا ورلڈ کپ کی دیگر ٹیمیں دیکھیں، ان کے فیلڈر باؤلروں کی محنت سے بننے والے اونے پونے چانس کو بھی تھام لیتے ہیں جبکہ یہاں 'ڈولی' اور 'لولی پوپس' کو بھی سخاوت کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب تک ورلڈ کپ میں پاکستانی فیلڈر 8 کیچ چھوڑ چکے ہیں، ایسی صورت میں آپ ہی بتائیں باؤلرز بیچارے کیا کریں؟ ایسی فیلڈنگ اور بلے بازی کے ساتھ آپ کو مچل اسٹارک جیسے 5 باؤلرز دے کر بھی میدان میں اتارا جائے، تب بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آسٹریلیا کی شکست کی سب سے بڑی ذمہ داری فیلڈنگ پر عائد ہوتی ہے۔
اس کے بعد آتے ہیں بلے باز۔ 1992ء کے ورلڈ کپ کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں لیکن یاد رکھیں کہ فتوحات میں وسیم اکرم اور مشتاق احمد جیسے باؤلرز کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد، رمیز راجا، عامر سہیل اور انضمام الحق کا کردار بھی بہت اہم تھا۔ آج عالم یہ ہے کہ ٹاپ آرڈر میں آپ کا گیم چینجر بلے باز فخر زمان اور لائن اَپ کے تجربہ کار ترین کھلاڑی شعیب ملک صفر پر آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ پھر پوری اننگز میں شاید ہی کوئی بلے باز ایسا ہو جو اچھی گیند پر آؤٹ ہوا ہو۔ امام الحق سے لے کر آصف علی تک، سب انتہائی غیر ضروری اور ناقص شاٹس کھیلتے ہوئے وکٹیں دے گئے۔ یہ تو حسن علی اور وہاب ریاض کی مختصر طوفانی اننگز تھیں جو پاکستان کی ڈوبتی امیدوں کو پھر زندہ کرگئیں ورنہ میچ تو درحقیقت 160 رنز پر چھٹی وکٹ گرنے کے بعد ہی ختم ہو چکا تھا۔
بہرحال، شکست یتیم ہوتی ہے، اسے کوئی قبول نہیں کرتا لیکن ذمہ دار سب ہیں اور سب مل کر ہی اگلے میچز میں شکست خوردہ ذہنیت سے نکل سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ جیتنا بلاشبہ انگلینڈ کے خلاف مقابلے سے کہیں زیادہ آسان تھا خاص طور پر محمد عامر کی باؤلنگ اور وہاب ریاض کی بیٹنگ کے بعد تو صرف فیصلہ کن وار کرنے کی ضرورت تھی لیکن کپتان سرفراز احمد اس میں بھی ناکام ہوگئے۔
ایک اینڈ سے وہاب ریاض کی دھواں دار بیٹنگ کے وقت ہی سرفراز احمد کو معاملات اپنی گرفت میں لے لینے چاہیے تھے جب پاکستان کو صرف 44 رنز کی ضرورت تھی بلکہ اُن سے پہلے حسن علی کو بھی ٹھنڈے مزاج کے ساتھ کھیلنے کی ہدایت دینی چاہیے تھی لیکن کپتان نے ایسا نہیں کیا بلکہ آخری دونوں بلے بازوں کو بھی ایکسپوز کیا، یوں سامنے نظر آنے والی کامیابی مایوس کُن ناکامی میں بدل گئی۔
ویسے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف میچوں کی مجموعی کارکردگی دیکھیں تو پاکستان اتنا بُرا نہیں کھیلا جتنا خدشہ تھا۔ آخری 18 میں سے 14 ون ڈے میچ ہارنے والی قومی ٹیم لگاتار 2 میچوں میں ناقابلِ یقین حد تک اچھا کھیلی ہے۔
اب ضرورت ہے فیلڈنگ میں ہونے والی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کی، بلے بازی میں ذمہ داری لینے کی اور مشکل صورت حال میں قائدانہ کردار نبھانے کی کیونکہ اب پاکستان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگلے میچوں میں یہ چھوٹی موٹی چیزیں لازماً بہتر کرنا ہوں گی تبھی آگے کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔ ورنہ 1992ء کی طرح ’اگر، مگر‘ کی کیفیت سے گزرنے کے بعد ہی سیمی فائنل کی کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے اور یہ یاد رکھیں کہ معجزے بار بار رونما نہیں ہوتے۔
تبصرے (1) بند ہیں