• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
KandNs Publishing Partner

شکست کا خوف تو تھا لیکن عبرتناک شکست کا نہیں!

شائع June 1, 2019 اپ ڈیٹ June 11, 2019

کبھی کبھی لگتا ہے کہ دکھ دینا بھی ایک سائنس بن چکا ہے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم انتہائی قابل سائنسدانوں کا ایک گروہ ہے جو تجربات سے گھبراتا نہیں، شاید سربراہ ریاست کے مشورے پر پورا عمل کرتا ہے۔

خیر مذاق برطرف، اصولاً تو اسے مذاق کہنا بجائے خود ایک مذاق ہے، اجی جلے دل کے پھپولے کہیے۔ گھبراہٹ تو کل خوب ہوئی ہے۔

ہمیں اس ٹیم کی ماضی قریب میں دی گئی پرفارمنس کے بعد یہ ڈر تو تھا کہ ہم ویسٹ انڈیز سے میچ ہار جائیں گے مگر جو کل ہوا ہے ایسا تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اس طرح کا سانحہ ورلڈ کپ کے دوسرے دن ہی ہوجانا امیدوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

آخر ہوا کیا؟

ہوا یوں کہ ویسٹ انڈین ٹیم نے شاید میجر جنرل آصف غفور صاحب کی بات سن لی کہ ’ہم سرپرائز دیں گے‘ اور انہوں نے سرپرائز دے دیا۔ سب جانتے تھے کہ اوور کاسٹ حالات ہیں سو ویسٹ انڈیز والے روایتی باؤلنگ کریں گے۔ پاکستانی بلے بازوں کو ’آف اسٹمپ کوریڈور‘ میں 2، 3 سلپ لگا کر قابو کیا جائے گا۔ پچ میں تھوڑی بہت جو بھی مدد ہوگی اسے بھرپور طریقے سے اپنے مفاد میں استعمال کیا جائے گا۔ کم از کم پاکستانی بلے بازوں کا فٹ ورک تو اسی پلاننگ کی نشاندہی کررہا تھا۔ حالانکہ 2 دن پہلے ایک انٹرویو میں ویسٹ انڈین اسپن باؤلنگ کنسلٹنٹ مشتاق احمد بتاچکے تھے کہ ویسٹ انڈین باؤلرز ہم پر شارٹ بال ٹرائی کریں گے۔

ہمیں اس ٹیم کی ماضی قریب میں دی گئی پرفارمنس کے بعد یہ ڈر تو تھا کہ ہم ویسٹ انڈیز سے میچ ہار جائیں گے —آئی سی سی
ہمیں اس ٹیم کی ماضی قریب میں دی گئی پرفارمنس کے بعد یہ ڈر تو تھا کہ ہم ویسٹ انڈیز سے میچ ہار جائیں گے —آئی سی سی

ویسٹ انڈیز نے یہی کیا انہوں نے پاکستانی بلے بازوں کو بیک فُٹ پر دھکیلا۔ پاکستانی بلے باز چونکہ اس کے عادی نہیں لہٰذا ان کو لاحق پریشانی واضح طور پر نظر آئی۔ فخر زمان کو ہم نے ایک ڈیشر کا رول دیا ہے، وہی رول جو بھارت کے ورندر سہواگ یا سری لکنا کے سنتھ جے سوریا جیسے بلے بازوں کا تھا اور اب یہی کردار کرس گیل اور جیسن رائے کا ہے۔ مگر ہر کھلاڑی کی مہارت اور کلاس میں فرق ہوتا ہے۔

فخر زمان میں خامی یہ ہے کہ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ شارٹ بال میری کمزوری ہے اور میں تب تک اچھا بلے باز نہیں مانا جاسکتا جب تک کہ اس بال پر اپنی اتھارٹی کی مہر ثبت نا کردوں۔ ان چیزوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی کھیل کے کسی بھی پہلو کے حوالے سے اتنا حساس نہیں ہونا چاہیے۔ ہر کھلاڑی میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے لیکن وہ اس پر قابو پاتا ہے۔ شارٹ بال تو سریش رائنا اور مائیکل بیون جیسے کامیاب کھلاڑیوں کی بھی کمزوری تھی لیکن وہ اسے مینیج کرتے تھے اور فخر کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا، دراصل یہاں دلیری نہیں دانشمندی چلتی ہے۔

موجودہ دور میں ہر کھلاڑی کا مکمل تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایسی کوئی کمی کسی سے چھپی رہ سکے یا مخالف ٹیم اس کا توڑ نا نکال سکے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب ہم مخالف پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہیں پھنس جاتے ہیں، کل بھی یہی ہوا۔ ویسٹ انڈیز نے ٹریپ کیا، 2، 4 اچھی شاٹس آئیں لیکن آخر کار ایک گیند جس کی اونچائی اور رفتار دونوں کو فخر پڑھ نا سکے ان کی اننگز کا خاتمہ کرگئی۔

امام الحق کا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ ٹیم میں انہیں اینکر رول ادا کرنا ہے، یعنی وہ ٹیم کو لے کر چلیں گے۔ تیز وہ کھیل نہیں سکتے یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ دائرے کے اوورز میں اسٹرائیک روٹیٹ نا کرنا ہے۔ جب تک ان کی آنکھیں اور قدم سیٹ ہوتے ہیں وہ 10 سے 15 گیندوں پر کبھی 2 کبھی 4 رنز پر کھڑے ہوتے ہیں۔ تب اچانک ان پر پریشر آتا ہے اور پھر کوئی خراب بال ملتے ہی وہ جذباتی شاٹ کھیل جاتے ہیں، کل ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں بھی ایسا ہوا۔ بال لیگ پر تھا، فائن لیگ اوپر تھا انہوں نے محسوس کیا کہ فری کا ایک چوکا مل سکتا ہے سو بڑے شاٹ کے لیے چلے گئے حالانکہ رن ریٹ ٹھیک تھا فخر ایک دو اچھے شاٹ لگا چکے تھے۔ وہ آرام سے گلانس کرتے اور ایک یا دو رنز نکال لیتے لیکن رسک مہنگا پڑگیا۔ دراصل ایسا شارٹ بال جب آپ کی رینج میں آتا ہے تو نظروں سے اوجھل ہوچکا ہوتا ہے۔ اچھا فٹ ورک (شفل کرنے کی قابلیت) اور شاندار نظر اس کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ ایج کا ڈر ہمیشہ رہتا ہے، یہی کل بھی ہوا۔

پاکستان کی ٹیم جب میدان میں اُتری تب ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ آصف کی جگہ حارث کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟ دونوں اوپنرز کے جلد آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے کم از کم انتظامیہ کا یہ فیصلہ تو درست لگا کہ ہمیں 5 مستند بلے بازوں کے ساتھ ہی جانا چاہیے تھا۔ یاد رہے مستند ایک اصطلاح ہی ہے جس کا اطلاق پاکستان بلے بازوں پر ہر روز نہیں کیا جاسکتا۔ خیر تب تک ویسٹ انڈین باؤلرز پاکستانی خیمے میں سراسیمگی کی لہر دوڑا چکے تھے۔ قسمت کی دیوی بھی پوری طرح ویسٹ انڈین خیمے پر پہرہ دے رہی تھی۔ حارث سہیل نے کورز میں شاندار شاٹ کھیلا تو لگا کہ آج لڑکا کچھ کرے گا مگر باؤلر نے انہیں باؤنسرز پر رکھ لیا۔

حارث اس ٹیم میں شاید تکنیکی طور پر معقول بلے باز ہیں اور مزاج بھی مثالی ہے۔ تاہم کل کے میچ میں اچھی خاصی 3 گیندیں جھک کر گزارنے کے بعد انتہائی احمقانہ انداز میں ایک شارٹ بال کو بلا ڈال دیا جسے آرام سے چھوڑا جاسکتا ہے اور جو شاٹ حارث کھیلنے گئے تھے شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ پائے ہوں گے کہ اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملنے والا تھا۔ ایسی بے تُکی شاٹ کا سب سے معقول نتیجہ پویلین میں واپسی ہی ہوتا ہے اور یہی ہوا۔

بابر اعظم نے ایک پُل شاٹ کھیل کر بتایا کہ اس پچ پر بیک فٹ پر جا کر کیسے کھیلنا ہے۔ اس ایک شاٹ میں تمام مسائل کا حل موجود تھا، یہ شارٹ بال کے خلاف ایک ٹیکسٹ بک جواب تھا۔ تاہم فٹ ورک کا یہ نظارہ دوبارہ دیکھنے کو نا مل سکا۔ بابر جیسا مکمل بلے باز بھی شراٹ بال سے پوری طرح انصاف نہیں کرپایا، پوائنٹ پر ان کا کیچ چُھوٹا تو امید تھی کہ اب وہ سنبھل جائیں گے اور ویسٹ انڈیز کو سبق سکھائیں گے مگر کل کا دن ہی خراب تھا۔ ایک لینھ بال جو تھوڑا مزید باہر جا رہا تھا، بابر اس کے پیچھے لپک گئے اور پاکستانی امیدوں کی نیّا نے ایک بڑا ہچکولا کھا لیا۔ بابر کے اس غیر ذمہ دارانہ شاٹ نے میچ میں پاکستانی واپسی کی تمام امیدیں خاک میں ملا دیں۔

حفیظ سے پورا پاکستان مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ ٹیم کے لیے اپنی بیٹنگ پوزیشن سرینڈر کریں، انہوں نے ایسا ہی کیا کپتان کے لیے جگہ چھوڑی اور چھٹے نمبر پر آئے۔ ٹیم مشکل میں تھی کپتان سے امید تھی کہ وہ ان حالات میں زیادہ عمدگی سے حالات کا سامنا کریں گے اور ان پر پرفارمنس کا پریشر بھی تھا۔ کل موقع تھا کہ وہ وقت لیتے اور لمبا اسکور کرتے جس سے ٹیم کو دوہرا فائدہ ہوتا، ایک تو ٹیم ٹوٹل بڑھتا، دوسرا کپتان کو اخلاقی طاقت ملتی۔ سرفراز نے وہی کیا جو امام نے کیا تھا، لیگ پر جاتی بال کو سستی سے چھیڑ دیا۔ یہ ایک ارادی شاٹ کے بجائے اضطراری قسم کا شاٹ لگا، جیسے کسی اعصاب زدہ کھلاڑی نے کھیلا ہو۔ شاید سرفراز ضرورت سے زیادہ دباؤ لے گئے۔

پاکستان کی ٹیم جب میدان میں اُتری تب ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ آصف کی جگہ حارث کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟—آئی سی سی
پاکستان کی ٹیم جب میدان میں اُتری تب ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ آصف کی جگہ حارث کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟—آئی سی سی

عماد اور شارٹ بال، یہ ایک نیا دکھ ہے۔ پہلے ہم نے فہیم اشرف کے اندر کا آل راؤنڈر حالات کی نذر ہوتے دیکھا اب عماد اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جب بھی ٹیم کو مشکل حالات پیش ہوتے ہیں تو عماد جذباتی قسم کے شاٹ کھیل کر آؤٹ ہو جاتے ہیں جیسے بندہ مصیبت سے جان چھڑا رہا ہو۔

یہ ترکیب لمبی نہیں چل سکتی۔ ایک آل راؤنڈر کو با تدبیر بھی ہونا چاہیے۔ حفیظ کو تو تھامس نے باقاعدہ ڈرا کر ایک ٹیل اینڈر کی طرح قابو کیا، یہ منظر خاصا تکلیفدہ تھا کیونکہ ایک ایسا تجربہ کار بلے باز جو ایک طویل عرصے تک اوپنر بھی رہا ہو اسے ایسے آؤٹ ہونا زیب نہیں دیتا۔

بیٹنگ میں سانحہ ہوچکا تھا۔ ہوجاتا ہے ٹیمز کے ساتھ ایسا چلتا رہتا ہے لیکن اصل تکلیف دہ کام باؤلنگ میں ہوا۔ واضح رہے کہ سرفراز احمد کی ٹیم میں موجودگی کی سب سے بڑی وجہ ان کا اچھا کپتان ہونا ہے۔ ان کی وکٹ کیپنگ کچھ غیر معمولی نہیں اور بطور بلے باز بھی زیادہ متاثرکن نہیں رہے، صرف کپتانی ہی انہیں اس ٹیم میں شامل رکھے ہوئے ہے۔

سرفراز احمد کی ٹیم میں موجودگی کی سب سے بڑی وجہ ان کا اچھا کپتان ہونا ہے—آئی سی سی
سرفراز احمد کی ٹیم میں موجودگی کی سب سے بڑی وجہ ان کا اچھا کپتان ہونا ہے—آئی سی سی

کل جس طرح سرفراز نے ٹیم کو لڑایا اس سے ان کی حاضر دماغی پر بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی دو ملکی سیریز نہیں جس میں ایک میچ ہار گئے تو بات ختم اور اگلے میچ میں دیکھا جائے گا۔ یہ ایک کثیرالملکی ٹورنامنٹ ہے جہاں ہر ایک گیند اہم ہوا کرتی ہے کیونکہ یہاں ملنے والا ہر ایک پوائنٹ درجہ بندی پر اثرا اندازہوتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے ٹاپ 5 بلے بازوں میں سے 4 کھیلے تھے، سب جانتے ہیں کہ ایک تو ویسٹ انڈیز والے ویسے ہی اسپنرز کے خلاف بہت اعلیٰ نہیں کھیلتے اوپر سے آپ کے پاس حفیظ کی شکل میں ایک آزمودہ ہتھیار ہے۔ حفیظ کئی بار ویسٹ انڈین اوپنرز کو انگلیوں پر گھما چکے ہیں۔

کپتان کو اتنا تو پتا ہونا چاہیے تھا کہ الٹے ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف ایک آف اسپنر کتنا کارگر ہوسکتا ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ اس سے کیا ہوتا؟ اتنا کم ٹارگٹ تھا کپتان کیا کرتا؟ اس سے ہوتا یہ کہ اگر حفیظ کرس گیل کو بروقت پکڑ لیتے تو جو اسکور 14 اوورز میں بنا ہے وہ 28 اوورز میں بنتا۔ اگر وکٹ نا بھی ملتی تب بھی کھیل کی رفتار کم کی جاسکتی تھی۔

ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ میں عمومی اور موجودہ فارمیٹ میں خصوصی طور پر جہاں 10 میں سے 4 ٹیمیں سیمی فائنل میں جانے کی اہل ہوتی ہیں، وہیں رن ریٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ آپ یوں ہتھیار نہیں ڈال سکتے، بلے بازوں کو تیز گیندیں پسند ہیں اور حسن علی منہ میں پھینکے جا رہے ہیں اور کپتان انتظار کر رہے ہیں کہ کب یہ رنز پورے ہوتے ہیں۔ آپ نے پہلے ہی میچ میں اپنے رن ریٹ کا ایسا بیڑا غرق کر لیا ہے کہ کم از کم 3 سے 4 میچ میں جا کر یہ پھانس نکلے گی سو اس میچ میں ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ٹورنامنٹ کی نسبتاً کمزور ٹیم کے خلاف آپ نے قیمتی پوائنٹس گنوا دیے اوپر سے رن ریٹ کا اتنا بڑا جھٹکا کھا لیا کہ اب ہر میچ میں یہ تلوار سر پر لٹکتی رہے گی۔

پاکستانی بلے بازوں نے کل ایک اور غلطی یہ بھی کی کہ گراؤنڈ کی شہرت کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتے رہے جو کہ انتہائی خراب پالیسی تھی۔ ضروری نہیں کہ جس گراؤنڈ پر بڑے اسکور بنتے ہیں وہاں ہمیشہ 400 ہی بنے گا، دراصل آپ کو اپنی اہلیت کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے، فخر کی حد تک ٹھیک تھا لیکن بابر وغیرہ کو لمبا کھیلنے کی پالیسی پر چلنا چاہیے تھا اور کل تو ہوم گراؤنڈ جیسا ماحول تھا۔

پاکستانی بلے بازوں نے کل ایک اور غلطی یہ بھی کی کہ گراؤنڈ کی شہرت کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتے رہے جو کہ انتہائی خراب پالیسی تھی
پاکستانی بلے بازوں نے کل ایک اور غلطی یہ بھی کی کہ گراؤنڈ کی شہرت کے مطابق کھیلنے کی کوشش کرتے رہے جو کہ انتہائی خراب پالیسی تھی

قومی ٹیم ایک روزہ کرکٹ کی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلسل 11 ایک روزہ میچ ہار چکی ہے پھر ایک اور دھچکہ یہ کہ کسی بھی ورلڈکپ میچ میں گیندوں کے حساب سے یہ پاکستان کی سب سے مختصر ایک روزہ اننگ تھی۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف 74 رنز کے بعد کل پاکستان نے اپنا دوسرا کم ترین اسکور بھی بنایا ہے تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ کل مخالف باؤلنگ اٹیک بالکل اوسط درجے کا تھا۔

کل کرس گیل نے مسلسل چھٹی ایک روزہ اننگ میں 50 یا اس سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ ان 6 باریوں میں انہوں نے 47 چھکے لگائے ہیں، کسی اور کو نہیں تو کم از کم فخر زمان کو اُن سے ضرور سیکھنا چاہیے کہ تیز لیکن کنٹرولڈ اننگز کیسے کھیلتے ہیں۔ گھبرانے والی بات یہ نہیں کہ ہم اتنے کم اسکور پر آؤٹ کیوں ہوگئے بلکہ گھبرانے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ پاؤں کیوں پھول جاتے ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے منیجر ریحان خان نے اپنے ٹوئٹ میں بڑی

کل ایک دلچسپ ٹوئٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں بڑے ہی یہ دلچسپ بات پڑھنے کو ملی کہ ہم نے آج تک 3 بڑے ٹورنامنٹ جیتے ہیں، تینوں کے افتتاحی میچ میں ہمیں خاصی عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے 1992ء میں ویسٹ انڈیز سے 10 وکٹوں کی شکست، جیسے 2009ء کے ٹی 20 ورلڈکپ کے افتتاحی میچ میں انگلینڈ نے ہمیں 48 رنز سے ہرایا تھا اسی طرح چمپئین ٹرافی میں انڈیا نے بھی ہمارا یہی حشر کیا تھا۔

محمد عامر—آئی سی سی
محمد عامر—آئی سی سی

کل کے میچ میں فخر اور بابر تھوڑی توجہ سے کھیلتے تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ شاداب میچ پریکٹس کی کمی کا شکار لگے، ٹیم کمبی نیشن زبردست تھا صرف ون ڈائمینشنل بیٹنگ آرڈر میں تھوڑا بدلاؤ کرلیں اور حارث یا عماد کی جگہ آصف کو لے آئیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔

بیٹنگ اور باؤلنگ کے دوران ٹیم انتظامیہ کھلاڑیوں کو یہ نا بھولنے دے کہ دل نہیں چھوڑنا بلکہ لڑنا ہے۔ یہ کام ہم نیوزی لینڈ سے سیکھ سکتے ہیں اسٹیو واہ اور رکی پونٹنگ کی گریٹ آسٹریلین ٹیمیں بھی ایسی ہی تھیں۔ کل 5 یا 6 وکٹیں گرنے کے بعد بلے باز سنجیدہ ہوجاتے تو میچ کو لمبا لے جایا سکتا تھا۔ ٹیم کو ایک باری سے آگے کا سوچنا چاہیے۔ دراصل یہ میراتھن ریس ہے لیکن اگر اسے 200 میٹر کی ریس سمجھ کر دوڑا جائے گا تو ہم ہر بار آخری نمبر پر آئیں گے۔

آخر میں اس میچ میں حاصل ہونے والے واحد پلس پوائنٹ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ جی ہاں محمد عامر کی فارم میں واپسی۔ باؤلنگ تو وہ پہلے بھی اچھی کر رہے تھے لیکن کل انہوں نے اچھی لینتھ پکڑی جس کی وجہ سے انہیں وکٹیں بھی ملی ہیں۔ عامر کی فارم میں واپسی سے ٹیم انتظامیہ کو خاصا حوصلہ ملا ہوگا۔

محسن حدید

محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024