14 سو ارب روپے ریونیو کا تخمینہ: آئندہ مالی سال میں عوام پر مالی بوجھ ڈالنے کی تیاری
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے 11 جون کو پیش کیے جانے والے اگلے مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 14 سو ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنے کی منظور دے دی۔
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ اجلاس میں بجٹ 20-2019 پر 2 سے ڈھائی گھنٹے بحث ہوئی اور ٹیکس ریفارمز کے تحت 14 سو ارب روپے کے اضافی ریونیو کی منظوری دی گئی۔
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ 14 سو ارب روپے میں سے 700 ارب کے اضافی ٹیکس بھی عوام سے وصول کیے جائیں گے۔
حج کوٹے میں اضافہ
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے رواں برس حج کیلئے پاکستان کے کوٹے میں 15 ہزار 790 حجاج کے اضافے کی منظوری دے دی تاہم اضافی کوٹے کو حکومت اور پرائیویٹ آپریٹرز کے مابین بلترتیب 60 اور 40 کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کو بتایا گیا کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کے تحت برطانیہ میں موجود پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق معلومات کا تبادلہ ہو سکے گا۔
مزیدپڑھیں: وزیراعظم عمران خان آئندہ ماہ قرضِ حسنہ اسکیم کا آغاز کریں گے
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اجلاس کو بتایا گیا کہ 31 سرکاری اثاثوں کو فروخت کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 31 میں سے 17 اثاثے قومی احتساب بیورو (نیب) نے ای آر آر اے کے 19 گریڈ کے افسران سے حاصل کیے، جس کا تخمینہ تقریباً ایک ارب روپے بنتا ہے۔
ایک لاکھ میں سے محض 300 کمپنیاں رجسٹرڈ
فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے محض 300 کمپنیاں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے رجسٹرڈ ہیں، جو ٹیکس ادا کررہی ہیں۔
سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی واپسی سے متعلق سوال کے جواب میں معاون خصوصی نے بتایا کہ برطانوی حکومت سے معاہدے کے بعد تمام پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق معلومات ظاہر ہوجائیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کیا ہم نے نریندر مودی کو اپنے وزیراعظم کی تقریب میں مدعو کیا تھا؟ تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بھارت عمران کو نریندرمودی کی تقریب میں آنے کی دعوت دے؟
خرقمر چیک پوسٹ پر حملے کی مذمت
وفاقی کابینہ نے خر قمر چیک پوسٹ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت اور ملک بھر کے عوام پاک-فوج کے ساتھ ہیں جبکہ قومی سلامتی کو داﺅ پر لگانے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ 'اجلاس میں خرقمر چیک پوسٹ پر حملے کے واقعے پر غور کیا گیا، کابینہ کو بتایا گیا کہ چیک پوسٹ پر حملے کے لیے چند شرپسند قبائلیوں کو ورغلا کر جھتے کی شکل میں حملہ آور ہونے کے لیے لایا گیا تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: احساس پروگرام پاکستان کو فلاحی ریاست بنائے گا، وزیراعظم
انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے شرپسند کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت اور ملک بھر کے عوام پاک-فوج کے ساتھ ہیں جبکہ قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام نے فاٹا میں امن کی بحالی کے لیے بہت قربانیاں دیں اور مشکلات برداشت کیں، یہ سب کچھ شرپسند عناصر کو پسند نہیں آیا۔
فاٹا کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص
معاون خصوصی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے 102 ارب کے ترقیاتی فنڈ فاٹا کے لیے مختص کیے، فاٹا میں ریاست کی رٹ کو بحال کرتے ہوئے نوگو ایریا کو ختم کیا، اب وہاں پر صرف امن ترقی اور خوشحالی کے نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام کی تمام بنیادی ضروریات، حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے وفاقی و خیبر پختونخوا کی حکومتیں اور عوام فاٹا کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم نے تمام صوبوں کے 'این ایف سی ایوارڈ' سے اضافی فنڈ فاٹا کے لیے مختص کیے ہیں تاکہ وہاں بنیادی سہولتوں کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: سیکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ سے 5 اہلکار زخمی، پاک فوج
'بجٹ 11 جون کو پیش کیا جائے گا'
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں بجٹ کے حوالے سے ابتدائی پیپر پر غور کیا گیا، صحافیوں کا یہ پیغام کہ بجٹ لانگ سیشن میں ان کے لیے چائے پانی کا بجٹ مختص نہ کیا جائے وزیراعظم تک پہنچایا، جس پر عمران خان نے فیصلہ کیا کہ صحافیوں کے اس جذبہ خیر سگالی کے بعد اراکین پارلیمنٹ کے لیے بھی بجٹ لانگ سیشن کے لیے چائے پانی کے لیے فنڈ نہیں رکھا جائے گا۔
فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ 11 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا، وزیر اعظم کی واضح ہدایات کی روشنی میں ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) اور گائیڈ لائن بنائی گئی ہے جس میں معیشت کا استحکام ہمارا فوکس ہے، حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ بجٹ میں عام آدمی پر کوئی اثر نہ پڑے اور بوجھ کم سے کم ہو، ترقی کے لیے بجٹ میں پلیٹ فارم بنانا مقصد ہے اور ترقی کے ساتھ نوکریوں کے مواقع جڑے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل کی غربت مٹاؤ پروگرام ’احساس‘ پر حکومت کی تعریف
انہوں نے کہا کہ معاشی ٹیم کے روڈ میپ سے روپے کی قدر میں استحکام آیا، افواہوں کی فیکڑیوں سے معیشت عدم استحکام کا شکار کرنے والے ناکام ہوئے اور اب معیشت کے مثبت اشارے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ اسٹاک ایکسچینج میں نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے کہا کہ کابینہ کو برآمدات کے حوالے سے وزیر تجارت نے بریفنگ دی۔
وزیر اعظم نے وزرات تجارت کو ہدایات دیں کہ وہ جلد جامع ایکسپورٹ پالیسی کا اعلان کرے جس سے برآمدات بڑھانے، درآمدات اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا بجٹ میں 7 کھرب 75 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا ارادہ
انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیحات میں بیمار یونٹس کی بحالی بھی اہم ایجنڈا ہے، چین کے ساتھ پچھلے آزادانہ تجارتی معاہدے میں اپنی صنعت کا تحفظ نہیں کیا گیا اس لیے ہر چیز درآمد کر رہے ہیں جبکہ آئندہ بجٹ میں مقامی صنعت کو بھی ریلیف دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سگریٹ کی صنعت اور صحت سے جڑے چیلنجز پر غور کے بعد کابینہ نے فیصلہ کیا کہ سگریٹ انڈسٹری کو ٹیکس نیٹ میں زیادہ لایا جائے اور اس سے حاصل ہونے والا ریونیو کو صحت پر خرچ کیا جائے گا۔
بچوں کے جنسی استحصال پر سزائے موت کی تجویز
معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ پورنوگرافی ویب سائٹس کی وجہ سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں اور بچوں کے جنسی استحصال میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے انسانی حقوق، قانون و انصاف، داخلہ اور دیگر وزارتوں کو ذمہ داری سونپی ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، جنسی استحصال، زیادتی اور پرتشدد رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا جائے اور تجویز دی کہ بچوں کا استحصال کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا تعین ہونا چاہیے۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے تینوں وزارتوں کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے فی الفور لائحہ عمل تیار کر کے کابینہ میں لائیں تاکہ معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی اس وبا کی روک تھام ہو سکے، معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز آگاہی مہم کا حصہ بنیں اور ہر سطح پر انٹرنیٹ کی موجودگی اور اس پر موجود مواد سے بچنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے
انہوں نے بتایا کہ اب تک وفاقی کابینہ کے 42 اجلاس منعقد ہوئے ہیں جن کے 819 فیصلوں میں سے 584 پر عمل درآمد ہوا، 195 فیصلوں پر عملدرآمد جاری ہے جبکہ باقی 40 فیصد فیصلوں کے لیے بھی وقت مقرر کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے تمام وزرا کو ہدایات دی ہیں کہ وہ کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، جبکہ عوام کے مفاد کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سیکریٹری کابینہ نے شرکا کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلوں پر عمل کے لیے ایک 'ڈیش بورڈ' بنا دیا گیا ہے جس کی مستقل نگرانی ہورہی ہے۔