پیش رفت کے باوجود آئی ایم ایف سے چند معاملات پر اتفاق نہ ہوسکا، وزارت خزانہ
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کے لیے جاری مذاکرات کے حوالے سے وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم چند معاملات پر اتفاق نہ ہوسکا جس کے لیے مذکرات جاری رہیں گے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘دورے پر موجود آئی ایم ایف مشن سے ہمارے مذاکرات میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور چھٹی کے دوران مذاکرات جاری رہیں گے’۔
مذاکرات کو جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن سے مذاکرات 29 اپریل سے شروع ہوئے تھے جو 10 روز جاری رہے تاہم کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا تاہم چھٹیوں کے دوران بھی تبادلہ خیال جاری رکھا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چند معاملات پر ڈیڈلاک موجود ہے جس کو اگلے دو روز میں حل کردیا جائے گا کیونکہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ معاشرے کے غریب طبقے کو بھی تحفظ دینا ہے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف پروگرام: حکومت بجلی، گیس مہنگی کرنے اور نئے ٹیکس لگانے کیلئے تیار
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج آخری لمحات میں پھر ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا کیونکہ بجلی، گیس مہنگی اور بھاری بھرکم نئے ٹیکس لگانے کی شرائط پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے باعث مذاکرات کو مزید دو دن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
خیال رہے کہ شیڈول کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو پاکستانی حکام سے مذاکرات مکمل کر کے 10 مئی کو واپس لوٹنا تھا تاہم اب وفد دو روز بعد واپس لوٹےگا۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو ساڑھے 6 سے 8 ارب ڈالر قرض فراہم کرنے کے لیے مالیاتی امور سے متعلق سخت شرائط طے کر رکھی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام آئی ایم ایف کی انہی شرائط میں قدرے نرمی لانے کے لیے آئندہ دو روز بھی مذاکرات جاری رکھیں گے۔
آئی ایم ایف پیکیج کے حوالے سے دو روز قبل کہا گیا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین عملے کی سطح پر ہونے والے سمجھوتے کی تکمیل 10 مئی کو متوقع ہے جس میں دونوں فریقین 2 سال کے عرصے میں 700 ارب روپے کی ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف سے تکنیکی سطح کے مذاکرات، 6 سے 8 ارب ڈالر کا پیکج متوقع
مذاکرات کی تفصیلات سے متعلق مزید بتایا گیا تھا کہ ملاقات میں مالی سال 20-2019 کے لیے 11 ارب ڈالر کے مالیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے بات چیت کی۔
رپورٹ کے مطابق سمجھوتے کے تحت حکومت مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں مختلف مد میں دیئے گئے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنے کا آغاز کرے گی، جو تقریباً 350 ارب روپے کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ دونوں فریقین نے اس بات پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان آئندہ بجٹ میں صارفین کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردے گا۔
اس کے علاوہ اس بات پر بھی سمجھوتہ طے پایا تھا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو خودمختار بنایا جائے گا اور حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے والے مقبول فیصلوں کے لیے مداخلت کم سے کم کرے گی۔
مزید پڑھیں:حکومت اور آئی ایم ایف کی سوچ میں خاصی مطابقت ہے، وزیرخارجہ
اس ضمن میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 200-100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرنے کے مطالبے پر بھی اتفاق رائے کرلیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط کی تجاویز دی گئی تھیں جس سے ملک میں مہنگائی 19 فیصد تک بڑھ سکتی تھی، اس کے علاوہ دوسرا بڑا مطالبہ 600 بنیادی پوائنٹس میں اضافے کے ساتھ شرح سود کو 21 فیصد تک بڑھانے کا تھا۔