• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

کون چاہتا ہے کہ ایوب خان اور ضیاء الحق کا دور لوٹ آئے؟

شائع May 2, 2019
آئی اے رحمٰن
آئی اے رحمٰن

چند طاقتور عناصر کی جانب سے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام متعارف کیے جانے کا مطالبہ دراصل 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے شروع کردہ ایسی ہی ایک مہم کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔

جنرل ضیاء نظام کو تو باضابطہ طور پر بدل نہ سکے البتہ انہوں نے آئین میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کیں کہ صدارتی طرز کا نظام وجود میں آگیا۔

صدارتی نظام کے حق میں دلیل دیتے ہوئے ضیاء نے دعوی کیا کہ قائد اعظم صدارتی نظام حکومت چاہتے تھے جس کا ذکر ان کی ڈائری میں ملتا ہے۔ تاہم ڈائری کو کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا البتہ صرف ایک صفحہ میڈیا کو جاری کیا تھا، جبکہ لوگ قائد اعظم سے منسوب اس بات کا سیاق وسباق کا جائزہ نہ لے سکے۔ یہی نہیں جنرل اپنے بیان میں قائداعظم کے نام کا حوالہ دے کر مطمئن محسوس نہیں کر رہے تھے، کیونکہ ان کا مذہبیت پر مبنی مقاصد قائد کی سیاسی سوچ، بالخصوص عام شہریت پر مبنی ایک پاکستانی قوم کی تعمیر کے تصور کے متضاد تھے۔

چونکہ ضیاء کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے ایک عرصے تک قائد کی ڈائری کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے ایک آئینی حکام کا تختہ الٹا کیا تھا، جو ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا آزادی سے قبل قائداعظم نے سزائے موت تجویز کی تھی۔ انڈین نیشنل آرمی کے افسران کو حکومت کی جانب سے سنائی گئی سزا پر بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے انڈین نیشنل اسمبلی میں کہا تھا کہ، ’....جب وقت آن پڑا تو پاکستان میں میری فوج بلاشبہ اپنے ہر ایک فریضہ انجام دے گی اور وفاداری کا مظاہرہ کرے گی، اور اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو پھر چاہے وہ سپاہی ہو، افسر ہو یا پھر سویلین اس کا انجام بھی ویسا ہوگا جیسا ویلیم جوائس اور جان امیری کا ہوا۔‘ (یہ 2 افراد انگلش اشرافیہ کے ممبران تھے، جبکہ جان امیری سیکریٹری اسٹیٹ برائے ہندوستان کے بیٹے تھے، ان دونوں کو دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی حمایت پر پھانسی دی گئی تھی۔)

چونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ کے اندر مطلوبہ قوت نہیں ہے اس لیے قانون کے وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ موجودہ نظام کو صدارتی نظام سے بدلنے کے لیے ریفرینڈم ایک جمہوری طریقہ کار رہے گا۔ مگر نظام حکومت پر ریفرینڈم کے لیے بھی آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ ماضی میں ضیا اور مشرف نے جس طرح ریفرینڈم کروائے اور اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کیے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ لوگ ریفرینڈم کے ذریعے کسی تبدیلی کو قبول کریں گے۔

حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ صدارتی نظام لانے کا کہا تو جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا ہے دنیا میں رائج صدارتی نظاموں میں کس طرز کے نظام کو پاکستان کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔ جب تک تبدیلی کی وکالت کرنے والے میز پر اپنے سارے پتے نہیں پھینکتے تب تک اس پر ایک باقاعدہ مباحثہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

تاہم پاکستان پہلے ہی صدارتی نظام کے تجربے کر کرکے تھک چکا ہے اور اس کے تباہ کن نتائج بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

حقیقتاً ایوب خان ایک ایسے صدارتی نظام پر یقین رکھتے تھے جس میں پارلیمنٹ کے اندر کوئی سیاسی جماعت نہ ہو، وزرا نہ تو قانون ساز ایوانوں کے ارکان ہوں اور نہ ہی اداروں کے آگے جوابدہ ہوں۔ انہوں نے اپنا مرتب کردہ آئین کو نافذ کیا، ریاست کا نام تبدیل کیا اور بنیادی قانون میں سے بنیادی حقوق کے باب کو نکال دیا۔ انہیں پیچھے تو ہٹنا پڑا تھا مگر انہوں نے کبھی بھی کسی جمہوری ادارے کے آگے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ انہوں نے آپریشن جبرالٹر سے قبل قومی اسمبلی سے مشاورت نہیں کی اور پھر یہی آپریشن 1965ء میں ہندوستان کے ساتھ تنازع کی وجہ بنا، جبکہ انہوں نے تاشفند معاہدے کے بارے اس وقت اطلاع دی جب وہ اس پر اپنے دستخط کرچکے تھے۔ انہوں نے ترقی کے نام پر رشوتوں کے ذریعے ملک کے مشرقی حصے کی وفاداری خریدنے اور مونیم خان جیسے تابعدار متنازع اشخاص کی مدد سے نظم و نسق بحال رکھنے کی کوشش کی۔ استحکام اور ترقی کی ایک دہائی کے بعد ملک دو لخت ہوگیا۔

چند سیاسی طور پر نادان لوگ ایوب خان کی جانب سے سیاسی نظام پر چھوڑے گئے زخموں کو صدارتی لبادے میں اوڑھی ہوئی آمریت میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے عوض معاف کردیتے ہیں۔ پھر وہ ان برٹش کے خلاف ہماری جدوجہد کیوں بھول جاتے ہیں جنہوں نے ہمارے لیے عدالتیں اور یونیورسٹیاں بنائیں، ریل پٹریاں بچھائیں اور دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام تعمیر کیا۔

ایوب خان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے یحیٰ خان کو ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کی بحالی، ون یونٹ کے خاتمے اور ملک کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد کروانے کا کسی حد تک سہرا دیا جاتا ہے، مگر انہوں نے انتخابات کے نتائج کو نہ مان کر اور ملک کو ٹوٹنے کی نہج پر لاکر رسوائی کا پیرہن پہن لیا۔ انہوں نے تمام کام، چاہے اچھے یا برے، کسی بھی نمائندہ مجلس سے مشاورت کے بغیر کیے تھے۔

جنرل ضیاء بھی ایک طاقتور صدر تھے۔ انہوں نے اپنے رفقاء سے مشاورت کا ڈھونگ تو رچایا مگر انہوں نے اپنی منشا کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے اور وہ کسی ادارے کی نگرانی کے بھی تابع نہیں تھے۔ انہوں نے آئین کو اپنے خیالاتِ خام کے مطابق تبدیل کیا۔ سب سے بدترین کام تو یہ ہوا کہ انہوں نے پاکستان کو افغانستان تنازع کی طرف دھکیل دیا اور اسے بندوق اور منشیات کلچر کا شکار بنا دیا۔

چنانچہ پاکستان کے صدور نے جتنا غیر معمولی نقصان ریاست کو پہچایا ہے اتنا تو تمام پارلیمانی لیڈران نے مل کر بھی نہیں پہنچایا ہوگا۔

صدارتی اور پارلیمانی نظام میں سے ایک کا انتخاب اس بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کون سا نظام نظریاتی اعتبار سے دوسرے سے اعلیٰ ہے۔ ہوشمندی اور فہم عامہ ایک ایسے نظام کا تقاضا کرتا ہے کہ جس سے عوام آشنا ہو۔

ایوب خان اور ضیاء الحق دونوں نے ایک ایسے نظام کی حمایت کی جو بظاہر عوام کی اعلیٰ ذہانت یا نفسیات سے مطابقت رکھنے والا ہو۔ اگرچہ پاکستانی عوام نے ایک سے زائد بار آمریتی حکومتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے، لیکن تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ جو یہ ظاہر کرے کہ انہوں نے آزادی پر غلامی کو ترجیح دی۔ دوسری طرف انہوں نے اپنی جدوجہد اور قربانی سے ہر 9 یا پھر 10 سالہ طاقتور آمریت کو زیر کیا ہے۔

پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت، سیاسی جماعتوں اور خود سیاست کو ظالمانہ ظاہر کرنے کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ بینادی آزادیوں اور معقول رائے عامہ کی آوازوں کے لیے تو جیسے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ لوگوں کے پاس اس بات سے ڈرنے کا درست سبب ہے کہ صدارتی نظام کی طرف لوٹنا نمائندہ گورننس کے ناپید ہونے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

چونکہ سیاست ممکنات کے فن کا نام ہے اس لیے تمام جمہوری گرہوں پر پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس نظام کو عام شہریوں نے سمجھنا شروع کردیا ہے، اور وہ راہ نہیں لینی چاہیے جو ایک ایسے بہتر تصور کیے جانے والے نظام کو جاتی ہے کہ جسے سنبھالنے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ فرشتے ہی موجود نہیں ہیں۔

یہ مضمون 2 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری May 02, 2019 06:56pm
صدارتی نطام کی بحث سنجیدہ مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش لگتی ہے۔ پاکستان میں صدارتی یا پارلیمانی نظام کچھ بھی آپ لگا لیں حالات اس وقت تک نہیں بدلنے والے جب تک انتظامیہ اور عدلیہ اپنے کام صحیح طور پر انجام نہیں دیں گے۔ انتظامیہ کے افسران یا تو کام کرنا جانتے ہی نہیں ہیں یا ان کے سیٹ پر بیٹھ کر مقاصد ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔ اسی طرح عدلیہ کی کر کردگی اتنی اچھی نہیں۔ ہزاروں مقدمات حل کے لیے یونہی پڑے ہوئے ہیں؛ فیصلے بھی عجیب عجیب آرہے ہیں۔ انتظامیہ اور عدلیہ پر اگر کسی کا دبائو ہے تو وہ دور ہونا چاہیے۔ ہمیں نیا نظام نہیں بہتر انتظام چاہیے۔
zia May 03, 2019 11:03pm
no one. NO ONE WANTS REPEAT OF MARTIAL LAW.
Shahid Saeed Khan May 04, 2019 01:16am
It doesn't matter of like or dislike... whatever is better should be adopted. Just compare $ and growth rate of those eras, and then decide. Decision with wisdom will work rather than heart.
عمران May 04, 2019 03:58pm
اگر حکمران براہ راست عوام کے دوٹوں سے منتخب ہو تو وہ چھوٹی پارٹیوں سے بلیک میل نہیں ہو گا۔ ایم کیوایم، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، اے این پی، مسلم لیگ قاف ، بی این پی، جی ڈی اے اور اسطرح کی بے شمار پارٹیاں معاشرے میں صرف تقسیم کا باعث بن رہی ہیں اور ہر آنے والی حکومت کو بلیک میل کرتی ہیں۔ حکمران براہ راست منتخب ہو گا تو ان کنگ میکر پارٹیوں کی بلیک میلنگ ختم ہو جائے گی۔ اور بھانت بھانت کی سیاسی بولیوں سے بھی نجات ملے گی جو صرف منافرت میں اضافے کا باعث ہے۔
adnan May 05, 2019 01:14pm
Existing parliamentary system proved as fatal for Pakistan need to change into presidential system.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024