• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلوچستان: مکران کوسٹل ہائی وے پر 14 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کردیا گیا

شائع April 18, 2019 اپ ڈیٹ April 19, 2019

کوئٹہ: صوبہ بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے کے قریب مسلح افراد نے 14 مسافروں کو بسوں سے اتار کر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں پیش آیا جہاں مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بسوں سے اتار کر شناخت کرکے قتل کیے گئے 14 افراد میں 11 نیوی، ایئر فورس اور کوسٹ گارڈز کے اہلکار تھے۔

انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) بلوچستان محسن حسن بٹ کے مطابق بزی ٹاپ کے علاقے میں رات 12.30 سے ایک بجے کے درمیان تقریباً 15 سے 20 مسلح افراد نے کراچی سے گوادر آنے اور جانے والی 5 سے 6 بسوں کو روک کر اس میں موجود مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھے اور انہیں گاڑی سے اتار کر قتل کردیا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ ایک بار پھر دہشت گردی کی زد میں

انہوں نے واقعے سے متعلق بتایا کہ یہ 'ٹارگٹ کلنگ' ہے اور متاثرہ افراد کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر قریب فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔

فائرنگ کے واقعے میں کُل 16 مسافروں میں سے 14 کو قتل کیا گیا جبکہ 2 مسافر بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور قریبی لیویز چیک پوسٹ پہنچے، جنہیں اورماڑہ کے ہسپتال لے جایا گیا۔

بعد ازاں قتل کیے گئے افراد کی لاشیں نور بخش ہوٹل سے ملیں، جنہیں قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا، واقعے کے بعد جائے وقوع پر لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پہنچ گئے اور لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا جبکہ واقعے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئیں۔

واقعے کے بارے میں مقامی عہدیدار جہانگیر دشتی نے کہا کہ 3 درجن کے قریب افراد بس میں سفر کر رہے تھے۔

ادھر بلوچستان کے چیف سیکریٹری حیدر علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں نے فرنٹیئر کور کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ مقتولین میں نیوی اور کوسٹ گارڈ کا اہلکار بھی شامل ہیں۔

ڈان نیوز ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ ترجمان پاک بحریہ کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے واقعے میں قتل کیے گئے افراد میں پاک بحریہ کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

فائرنگ کے واقعے پر وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے سے متعلق تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور جائے وقوع سے فرار ہونے والے مسلح حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: سبزی منڈی میں خودکش حملہ، 20 افراد جاں بحق

انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں اور ہم اس بدترین حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے'

واضح رہے کہ اب تک مسلح افراد کی جانب سے ان افراد کو قتل کرنے کی وجوہات نہیں معلوم ہوسکیں جبکہ مقتولین کی شناخت کے بارے میں بھی ابھی واضح نہیں کیا گیا۔

وزیراعظم نے دہشتگردی کے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی

دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے مکران کوسٹل ہائی وے پر بے گناہ افراد کو نشانہ بنانے کے دہشت گردانہ عمل کی سخت مذمت کی۔

صدر مملکت نے اپنے بیان میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر انتہائی دکھ و افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کی کوششوں سے ملک میں بدامنی پھیلانی کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، دہشت گردی کے خلاف قوم متحد ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک بیان میں واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ملزمان کی شناخت کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور انہیں اس بزدلانہ عمل پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

عمران خان کی جانب سے واقعے میں متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔

صوبائی قیادت و سیاسی رہنماؤں کا اظہار مذمت

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے کوسٹل ہائی وے پر بس مسافروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے پر مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

اپنے بیان میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بزدل دہشت گردوں نے بے گناہ نہتے مسافروں کو قتل کرکے ظلم کی انتہا کی، امن کے دشمن اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔

جام کمال خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام بیرونی عناصر کے ایجنڈہ پر عمل پیرا دہشت گردوں کو نفرت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، دہشت گردی کا واقعہ ملک کو بدنام کرنے اور بلوچستان کی ترقی کو روکنے کی گھناؤنی سازش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترقی اور امن کا سفر ہر صورت جاری رہے گا، صوبے کے عوام کی تائید وحمایت سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل جاری رہے گا۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعے پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ہزارہ پر حملہ، حیات میں ٹی ٹی پی اور پھر آج کوسٹل ہائی وے کا بہیمانہ واقعہ ایک منظم طریقہ کار نظر آرہا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ 'ہم نے امن کے لیے بہت قربانی دی ہے، انشااللہ ہم ان واقعات کے ذمہ داران کو مثال عبرت بنادیں گے، ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

مکران کوسٹل ہائی وے پر فائرنگ کے واقعے پر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مذمت کی اور کہا کہ آج پھر بلوچستان میں معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ مکران کوسٹل ہائی وے پر معصوم لوگوں کا قتل وحشیانہ فعل ہے، معصوم انسانوں کا خون بہانے والے نا قابل معافی ہیں، ہم شہیدوں کے ورثاء کے غم میں شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جاتا تو ایسے سانحے نہ ہوتے، دہشت گردی ایک لعنت ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت دہشت گردی کی نرسریوں سے لاعلم ہو۔

انہوں نے مقتولین کے لواحقین سے ہمدردری کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو قانون کی گرفت میں لائے۔

واقعے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مکران کوسٹل ہائی وے پر مسافروں کو قتل کرنے کی شدید مذمت کی۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بے گناہ افراد کا خون بہانے والے انسان اور انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے، ملک میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات باعث تشویش ہیں۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر اس عفریت پر قابو پایا تھا، تاہم پاکستان میں کچھ دن سے ہونے والے منظم دہشت گردی کے واقعات دشمنوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ بسوں سے اتار کر مسافروں کو اس طرح سے قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ 2015 میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں پیش آیا تھا، جہاں مسلح افراد نے کراچی سے تعلق رکھنے والی کوچز کے تقریباً 2 درجن مسافروں کو اغوا کرلیا تھا، جس کے بعد کھڈ کوچا کے علاقے میں پہاڑوں پر 19 افراد کو قتل کردیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان میں 2 دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے تھے، جس میں کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں سبزی منڈی میں دھماکے میں 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اسی روز چمن میں بھی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

شریف ولی کھرمنگی۔ Apr 18, 2019 10:02am
چند سال قبل گلگت بلتستان کے علاقہ چلاس اور پھر بابوسر میں بھی بسوں سے اتار کر لوگوں کو شناخت کرکے شہید کئے گئے۔ ریاستی ادارے تب بھی ناکام رہے۔ اب بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں حکومت اور ریاستی ادارے بری طرح ناکام ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024