اصلاحات سے پاکستان میں ٹیکس وصولی کے ساتھ رشوت خوری میں بھی اضافہ ہوا، آئی ایم ایف
واشنگٹن: بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے ایک حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ پاکستان میں کارکردگی کی بنیاد پر ٹیکس حکام کی تنخواہوں کی وجہ سے ٹیکس وصولی قابل ذکر حد تک بڑھی لیکن اس حکومتی اقدام سے رشوت کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی 'حکومتوں میں بدعنوانی سے نمٹنے' سے متعلق تحقیق میں 180 سے زائد ممالک کا جائزہ لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی زیادہ بدعنوان ممالک نے کم ٹیکس جمع کیا کیونکہ لوگ اس سے بچنے کے لیے رشوت ادا کرتے ہیں، جس میں کک بیکس کی ادائیگی کے لیے ٹیکس میں ڈیزائن کی گئی خامیاں شامل ہوتی ہیں۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب ٹیکس دہندگان کو یہ لگتا ہے کہ اس کی حکومت بدعنوان ہے تو وہ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کی زیادہ کوشش کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا تجارتی خسارہ 14 فیصد کمی کے بعد 23 ارب 45 کروڑ ڈالر کی سطح پر
آئی ایم ایف نے اپنی تحقیق میں پاکستان کی جانب سے کارکردگی کی بنیاد پر ٹیکس حکام کے لیے حالیہ مراعات کا جائزہ لیا جس میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ نتائج دونوں شامل تھے۔
تحقیق میں یہ پتہ چلا کہ ' پاکستان میں ٹیکس حکام کی کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہوں نے (زیادہ سے زیادہ 50 فیصد) تک ٹیکس وصولی میں نمایاں اضافہ کیا جبکہ رشوت کی درخواستیں بھی 30 فیصد تک بڑھ گئیں'۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے زائد اجرت کو نگرانی اور پابندیوں سے جوڑنے کی تجویز دی گئی۔
ساتھ ہی جارجیا میں اصلاحات کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس سے کرپشن میں نمایاں طور پر کمی اور ٹیکس ریونیو دوگنا سے زیادہ بڑھا جس سے 2003 سے 2008 کے درمیان جی ڈی پی کے 13 فیصد پوائنٹس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
1990 کی دہائی کے وسط سے کرپشن کے خلاف روندا کی اصلاحات سے ٹیکس آمدنی میں جی ڈی پی کے 6 فیصد پوائنٹس تک اضافہ ہوا۔
کرپشن سے لڑنا اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے مقاصد میں سے ایک ہے کیونکہ اس کا وسیع تصور ہے کہ بدعنوانی سے نمٹنا معاشی کارکردگی اور اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا آئی ایم ایف پیکج رکوانے کیلئے امریکا میں بھارتی لابی سرگرم
آئی ایم ایف کی تحقیق بتاتی ہے کہ مجموعی طور پر کم کرپٹ حکومتیں ان ممالک کے مقابلے میں ٹیکس آمدنی میں جی ڈی پی کا 4 فیصد زیادہ جمع کرتی ہیں جو کرپشن کی بلند سطح کے ساتھ اسی سطح کی اقتصادی ترقی کی شرح پر ہوں۔
ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کرپشن حکومتی ترجیحات کو بھی مسخ کردیتی ہے۔
مثال کے طور پر کم آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ممالک میں تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ کا حصہ ایک تہائی کم ہے اور اس سے سماجی اخراجات بھی متاثر ہوتے ہیں جبکہ زیادہ کرپٹ ممالک میں اسکول کی عمر کے طلبا کا ٹیسٹ اسکور کم ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ کرپشن لوگوں کو ملک کی قدرتی وسائل سے بننے والی رقم کے مکمل فائدے سے مستفید ہونے سے بھی روکتی ہے کیونکہ تیل یا کان کنی کی تلاش سے بڑا منافع ہوتا ہے اور یہ کرپشن کے لیے ایک مضبوط رغبت پیدا کرتا ہے۔
عالمی ادارے کی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ وسائل سے مالا مال ممالک میں عموماً کمزور ادارے اور زیادہ کرپشن ہوتی ہے۔
سیاسی عزم
تحقیق میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ کرپشن سے لڑنے کے لیے سیاسی عزم کے ساتج مضبوط مالیاتی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو پورے سرکاری شعبے میں دیانت داری اور احتساب کو فروغ دے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی ترقی کی شرح نیپال اور مالدیپ سے بھی کم رہے گی، اقوام متحدہ
ادارے کی جانب سے یہ تجویز دی گئی کہ اعلیٰ سطح کی شفافیت اور آزاد بیرونی سیکیورٹی کرپشن کے خلاف لڑنے میں اسی طرح مدد دیتی جیسے ایک آزاد میڈیا کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اداروں میں اصلاحات کرپشن کے خلاف لڑائی میں کامیابی کے امکانات بڑھادیتے ہیں جبکہ کامیابی کے امکانات اس وقت بہت زیادہ ہوجاتے ہیں جب ممالک کرپشن سے نٹمنے کے لیے تمام زاویوں سے اصلاحات کو ڈیزائن کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق کرپشن کو کچلنے کے لیے پیشہ وارانہ سول سروس کا قیام بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے آمدنی کے انتظامات اور قدرتی وسائل کے انتظام میں اضافہ ہوتا ہے۔
ادارے کی تحقیق کے آخر میں کہا گیا کہ 'کرپشن کو ختم کرنا ایک چیلنج ہے جس کے لیے مختلف محاذ پر ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ایک مرتبہ ہوجائے تو بہت منافع دیتا ہے، یہ سیاسی عزم کے ساتھ شروع ہوتا ہے، جو دیانت داری، احتساب اور عالمی تعاون کے فروغ کے لیے اداروں کو مسلسل مضبوط کرتا ہے'۔