بھارت میں معروف موبائل گیم ’پب جی‘ پر پابندی کا مطالبہ
جنوبی بھارت میں معروف موبائل گیم کھیلنے پر ماں کی ڈانٹ سے بچے کی خودکشی کے واقعے کے بعد قومی سطح پر اس گیم کی پابندی کے مطالبہ زور پکڑنے لگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حیدر آباد میں 16 سالہ بچے نے انگریزی کے امتحان کی تیاری کے بجائے آن لائن گیم کھیلنے پر والدین کی جانب سے سرزنش کیے جانے پر پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔
اس واقعے کے بعد بچے کے والد نے (Player Unknown’s Battle Grounds) ’پب جی‘ کے نام سے مشہور گیم پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
پابندی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ گیم خطرناک حد تک آپ کا دھیان اپنی جانب مبذول کرکے رکھتا ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق رواں سال مارچ کے مہینے میں ریاست مہاراشترا میں 2 نوجوان ریل کی پٹڑیوں کے قریب اپنے فون میں گیم کھیلنے میں مگن تھے کہ ایک ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تھے۔
پب جی کو جنوبی کوریا کی کمپنی نے تیار کیا تھا جس میں کھلاڑی ایک جزیرے پر اترتے ہیں اور ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔
2017 میں اس گیم کو متعارف کرائے جانے کے بعد سے اس نے دنیا بھر سے کروڑوں لوگوں کی توجہ حاصل کی۔
گزشتہ سال دسمبر کے مہینے تک اس گیم کے صرف موبائل کے لیے 20 کروڑ سے زائد ڈاؤن لوڈز تھے۔
بھارتی ریاست گجرات کے چند شہروں میں پہلے ہی اس گیم پر پابندی عائد کی جاچکی تھی۔
اس پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے حکومت نے کہا تھا کہ اس سے عوام پرتشدد ہورہے ہیں اور طلبہ کی توجہ اسکول سے ہٹ رہی ہے۔
اس کے بعد سے گجرات میں 2 درجن سے زائد افراد پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار ہوچکے ہیں۔
گجرات کے ضلع راج کوٹ کے پولیس کمشنر منوج اگروال کا ماننا ہے کہ زیادہ تر نوجوانوں کو، جن پر مقدمہ درج ہے، کوئی سخت سزا نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملزمان کو عدالت سے قانون کی پاسداری کی وارننگ دے کر رہا کردیا جائے گا‘۔
خیال رہے کہ گجرات میں 'پب جی' کے خلاف تحریک کا آغاز جنوری میں ہوا تھا جب ریاست کے محکمہ تعلیم نے تعلیمی سال کے اختتام تک اس گیم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
پب جی کی پابندی کا قانون بھارت کی واحد ریاست گجرات میں ہے تاہم دیگر علاقوں کے حکام بھی اس ہی طرح کے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔