’ دباؤ کے بغیر اسلام قبول کیا‘، مبینہ مغوی بہنوں نے تحفظ کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا
صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی سے مبینہ طور پر اغوا کی گئی دو بہنوں اور ان کے شوہروں نے اپنے تحفظ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
دائر کی گئی درخواست میں دونوں ہہنوں نے اقرار کیا ہے کہ انہوں نے کسی دباؤ کے بغیر اسلام قبول کیا۔
درخواست میں وزارت داخلہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، آئی جی پولیس پنجاب،سندھ اور اسلام آباد ،پیمرا، پاکستان ہندو کونسل کے نمائندہ اور رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اور دونوں لڑکیوں کے والد ہری لعل کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا میں ہندو لڑکیوں سے متعلق غلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جان کو خطرات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں بہنیں عرصہ دراز سے اسلامی تعلیمات سے متاثر تھیں لیکن جان سے مارنے کے خوف کے باعث دونوں لڑکیوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: ہندو لڑکیوں کا مبینہ اغوا، رحیم یار خان سے نکاح خواں سمیت 7 افراد گرفتار
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 20،9 اور 35 میں شہریوں کو آزادی کے ساتھ اپنی مرضی کےمذہب پر عمل کرنے اور شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے فریقین کو ان کی زندگیوں میں مداخلت سے روکا جائے۔
متن میں کہا گیا ہے کہ ہم نے اسلام زور زبردستی سے قبول نہیں کیا، اسلام قبول کرنے کے بعد رینا کا نام نادیہ اور روینا کا نام آسیہ رکھا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ دونوں بہنیں 20 مارچ 2019 کو اپنا گھر چھوڑنے میں کامیاب ہوئیں تاکہ وہ آزادی سے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔
تاہم ان کے والد نے ہندو کونسل کے دیگر اراکین کے ہمراہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ان کے اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے جانے کی من گھڑت کہانی بنائی تاکہ انہیں بازیاب کروانے کی کوشش کے تحت انہیں قتل کیا جاسکے۔
لہذا درخواست گزاران نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں رہائش اختیار کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا پر بیان، فواد چوہدری کا سشما سوراج کو کرارا جواب
درخواست کے متن میں کہا گیا 22 مارچ 2019 کو خان پور بار کے سامنے دونوں لڑکیوں نے اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعتراف کیا اور بار اراکین کو معاملہ بتاکر مدد طلب کی۔
تاہم خان پور کے وکلا نے اس صورتحال میں تعاون کرنے سے انکار کیا جس کے بعد انہوں نے تحفظ کے لیے شادی کا فیصلہ کیا اور آئین اور مذہب کے تحت زندگی گزارنے کے لیے ایک تقریب میں شادی کی،نادیہ کا نکاح برکت علی جبکہ آسیہ کا نکاح صفدر علی سے ہوا۔
درخواست میں کہا گیا کہ خان پور میں آپریشن کے نتیجے میں ان کے قتل کے منصوبے سے آگاہ ہونے کے بعد درخواست گزاران وفاقی حکومت سے درخواست کے لیے اسلام آباد پہنچے لیکن اس سے قبل ہی وزیراعظم عمران خان ان کے اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیلی کی من گھڑت کہانی پر یقین کرکے ان کی بازیابی کی ہدایت جاری کرچکے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیاگیاکہ درخواست گزاروں کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا حکم موجود ہے۔
انہوں نے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ دونوں بہنوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سندھ سے دو ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی کا نوٹس لے لیا
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیر گردش کر رہی تھیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی زیر گردش کر رہی ہیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے ویڈیو شیئر کی تھی اور بتایا کہ لڑکیوں کی عمریں 14 اور 16سال ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک قاضی کو لڑکیوں اور ان دو افراد کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن سے ان کی شادی ہوئی۔
قاضی نے کہا تھا کہ لڑکیاں اسلام سے متاثر ہوئیں اور الزام عائد کیا کہ لڑکیوں کے والدین غلط پروپیگنڈا کر کے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
بعد ازاں پولیس نے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سےدونوں بہنوں کا نکاح پڑھانےوالے قاضی سمیت 7 افراد کو گرفتار کرلیا۔
تبصرے (1) بند ہیں