16 سال سے سزائے موت کے منتظر ذہنی مریض قیدی خضر حیات کا انتقال
جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے اعلان کیا ہے کہ 16 سال سے سزائے موت کے منتظر 'ذہنی مریض' قیدی خضر حیات گزشتہ شب انتقال کرگئے۔
جے پی پی کی پریس ریلیز کے مطابق خضر حیات کو کھانا اور دوائیاں چھوڑنے کی وجہ سے طبیعت بگڑنے پر لاہور کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ انتقال کرگئے۔
جیل حکام کا کہنا تھا کہ خضر حیات میں خون کی شدید کمی تھی اور ان کا بلڈ پریشر بھی انتہائی کم تھا۔
مزید پڑھیں: سزائے موت کے 'نفسیاتی قیدی'کی پھانسی کیلئے 15 جنوری کی تاریخ مقرر
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے کھانے کی نالی لگائی تھی لیکن ان کی حالت مسلسل بگڑتی گئی اور انتقال سے چند گھنٹے قبل وہ بے ہوش ہوگئے تھے۔
جے پی پی کے مطابق جیل حکام نے 2008 میں خضر حیات میں ذہنی بیماری 'شیزوفرینیا' کی تشخیص کی تھی۔
پریس ریلیز کے مطابق ان کی دماغی حالت اور ذہنی معذوری سے متعلق ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں طاقت ور اینٹی سائیکوٹک ادویات دی گئیں، جس کی وجہ سے ان کا مرض بتدریج بگڑ گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’خضر حیات نے گزشتہ 6 برس جیل ہسپتال میں اپنے سیل میں تنہا گزارے جس کی وجہ سے وہ اپنے ارد گرد سے لاعلم ہوگئے تھے اور انہیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں تھے‘۔
جے پی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال نے کہا کہ ’یہ انتہائی ہولناک ہے کہ خضر حیات ایک طویل عرصے تک دیکھ بھال سے محروم رہے اور انصاف کے انتظار میں دنیا سے چلے گئے‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'ذہنی بیمار' شخص کی سزائے موت پر عمل روکنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ خضر حیات کا کیس اس بات کی حیران کن مثال ہے کہ ذہنی طور پر معذور قیدی سزائے موت کے حقدار کیوں نہیں ہوتے۔
سارہ بلال نے کہا کہ ایسے مریضوں کو باقاعدہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ جیلوں کی ہیبت ناک قید میں نہیں بلکہ ذہنی صحت کے مراکز میں ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ خضر حیات کو ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے پر اکتوبر 2001 میں مجرم قرار دیا گیا تھا، جبکہ ٹرائل کورٹ نے 2 سال بعد 2003 میں انہیں سزائے موت سنائی تھی۔
دسمبر 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے خضر کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے لیے ان کی والدہ کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی۔
عدالت کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے کے بعد جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے خضر حیات کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سزائے موت کے قیدی خضر حیات کا کیس لارجر بینچ کو منتقل
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی خضر حیات کے بلیک وارنٹ دو بار جاری ہوچکے ہیں اور دونوں بار لاہور ہائی کورٹ نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
جون 2015 میں خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے گئے جسے ہائی کورٹ نے آخری لمحات میں منسوخ کردیا تھا۔
اس کے بعد جنوری 2017 میں لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے خضر کے ایک بار پھر ڈیتھ وارنٹ جاری کیے لیکن اس بار بھی ہائی کورٹ نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
11 جنوری کو لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ذہنی مرض شیزوفرینیا (جس میں مریض کی شخصیت بے ربط، منتشر ہوجاتی ہے) میں مبتلا سزائے موت کے قیدی خضر حیات کو تختہ دار پر لٹکانے کی تاریخ 15 جنوری مقرر کردی تھی۔
اس کے بعد خضر حیات کے اہل خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ذہنی مرض میں مبتلا شخص کو پھانسی دی جا رہی ہے عدالت اس کا نوٹس لے۔
خیال رہے کہ 12 جنوری 2019 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خضر حیات کے اہل خانہ کی جانب سے کی جانے والی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے خضر حیات کی پھانسی تاحکم ثانی معطل کردیا تھا۔
جس کے بعد خضر حیات کا کیس دو رکنی بینچ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کو ارسال کیا گیا تھا،جو شیزوفرینیا میں مبتلا پھانسی کے دو قیدیوں امداد علی اور کنیزاں بی بی کے مقدمات کی سماعت کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے بھی خضر حیات کی ماہرین نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ ذہنی بیماری میں مبتلا قتل کے مجرم سابق پولیس افسر کو ’پھانسی‘ دینے سے گریز کیا جائے۔