حق حقدار کو مل گیا، کوئٹہ چیمپئن بن گیا!
کسی اور کو کیا کہیں کہ ہم نے بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا جنوبی افریقہ قرار دیا تھا۔ 3 سال کے عرصے میں لگنے والا یہ 'چوکرز' کا داغ مٹانا ضروری تھا اور اتوار کی شام دنیا نے دیکھا کہ کوئٹہ نے پشاور کو شکست دے کر اس سے اگلے پچھلے سارے بدلے لے لیے، دوسرے سیزن میں فائنل کی شکست کا بھی اور پچھلے سال ایلی منیٹر میں 1 رن سے ملنے والی ہار کا بھی۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے چیمپیئن بننے کی کہانی بہت ہی 'فلمی' ہے، خاص طور پر اگر اس کا آغاز 2015ء میں اس وقت سے کیا جائے جب پاکستان سپر لیگ کے خیال کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پی ایس ایل میں جن شہروں کو نمائندگی دی گئی، ان میں سب سے چھوٹا شہر کوئٹہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری وابستگی کی بنیاد پر کوئٹہ کی فین فالووِنگ بہت کم تھی۔ لیکن پی ایس ایل تاریخ میں اگر کسی ٹیم نے اپنی فین بیس کارکردگی کی بنیاد پر حاصل کی ہے وہ کوئٹہ ہی ہے، جس کے پرستار کراچی سے گلگت اور گوادر سے سیالکوٹ تک پھیلے ہوئے ہیں کہ جن کا دل 'PurpleForce#' نے اپنی پرفارمنس سے جیتا۔ کل رات ایسے تمام کوئٹہ فینز کی مراد بر آئیں جو سرفراز احمد کے ہاتھوں میں پی ایس ایل 4 کی خوبصورت ٹرافی دیکھنا چاہتے تھے۔
اس مقام تک پہنچنے کے لیے 'کوئٹہ وال' کو 4 سال انتظار کرنا پڑا اور یہ سفر ہرگز آسان نہیں تھا۔ فرنچائز خریدتے وقت سب کی نظریں کراچی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد پر تھیں کیونکہ یہ بڑی آبادی والے شہر تھے، کیونکہ ان شہروں کے باسیوں کی صورت میں خریدنے والوں کو مفت کے فینز ملتے۔
یہ چاروں ٹیمیں ہاتھوں ہاتھ بکیں اور خاصی مہنگی قیمتوں پر۔ کراچی کو 26 ملین ڈالرز کی خطیر رقم میں خریدا گیا، لاہور 25 ملین ڈالرز، پشاور کے حقوق 16 ملین اور اسلام آباد کے 15 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئے لیکن کوئٹہ سب سے پیچھے تھا، جسے کراچی سے تعلق رکھنے والی تعمیراتی کمپنی عمر ایسوسی ایٹس نے 11 ملین ڈالرز میں خریدا۔
کاغذ پر بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سب سے کمزور نظر آ رہے تھے۔ ان کے سب سے بڑے انٹرنیشنل اسٹارز بھی وہ تھے جو بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے یعنی کیون پیٹرسن اور کمار سنگاکارا جبکہ دوسری ٹیموں میں دورِ جدید کے بڑے بڑے نام نظر آئے۔ کرس گیل، شین واٹسن، آندرے رسل، ڈیرن سیمی، جانی بیئرسٹو، تمیم اقبال، ڈیوین براوو اور مستفیض الرحمٰن، جو لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں بٹے ہوئے تھے۔ لیکن جب سیزن 1 کا پہلا مرحلہ ختم ہوا تو کوئٹہ اپنے 8 میں سے 6 میچز جیت کر نمایاں تھا۔ ایک یادگار مقابلے میں وہ پشاور زلمی کو شکست دے کر فائنل تک بھی پہنچ گیا لیکن اسلام آباد کی ابھرتی ہوئی طاقت کے ہاتھوں ناکام ہوا۔
کئی حلقوں کا کہنا تھا کہ کوئٹہ محض اپنی خوش قسمتی کی وجہ سے فائنل تک پہنچا اور اگلے سیزن میں بھی اسے کوئی خاطر میں نہیں لایا۔ لاہور قلندرز اور کراچی کنگز ایک مرتبہ پھر کاغذ پر بہت مضبوط نظر آ رہے تھے لیکن کرکٹ کا کھیل کاغذ پر نہیں بلکہ میدان پر کھیلا جاتا ہے اور میدان میں کوئٹہ کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔
وہ ایک مرتبہ پھر فائنل تک پہنچ گیا کہ جہاں اس کے ساتھ ’ظلمِ عظیم‘ ہوگیا۔ پی ایس ایل انتظامیہ کا لاہور میں فائنل کروانے کا فیصلہ ویسے تو خوش آئند تھا لیکن کوئٹہ کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا کیونکہ اس فیصلے کے بعد گلیڈی ایٹرز کے تمام اہم غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ یوں انہیں لاہور میں ایک دوسرے درجے کی ٹیم کے ساتھ فائنل کھیلنا پڑا اور شکست ایک مرتبہ پھر مقدر ٹھیری۔
2 بار فائنل تک رسائی سے یہ بات تو ثابت ہوچکی تھی کہ کوئٹہ ایک طاقتور ٹیم ہے۔ لیکن کوئٹہ پی ایس ایل 3 میں بھی قسمت کے چکر میں آگیا۔ ایلی منیٹر میں اسے پشاور زلمی کے ہاتھوں صرف 1 رن کی شکست ہوگئی۔ اس بار بھی کوئٹہ نے یہ ناک آؤٹ مقابلہ اپنے 2 اہم کھلاڑیوں کیون پیٹرسن اور شین واٹسن کے بغیر کھیلا، پھر بھی وہ فتح کے بہت قریب پہنچا لیکن جیت نہ پایا۔
3 سیزنز میں اس طرح کی ناکامیوں کے بعد لگتا تھا کہ کوئٹہ کی قسمت میں ٹائٹل ہے ہی نہیں۔ بلاشبہ وہ پی ایس ایل تاریخ کی کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک تھا لیکن ایسی کامیابیوں کا کیا کرنا جو اعزاز بھی نہ جتوا پائیں؟
تب ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ کوئٹہ نے چوتھے سیزن میں قدم رکھا اور ایک مرتبہ پھر خود کو سب سے مستقل مزاج ٹیم ثابت کیا۔ سیزن کے پہلے مرحلے میں 10 میں سے 7 میچز جیتے اور ٹاپ 2 میں جگہ بناتے ہوئے پلے آف میں پہنچ گیا۔ یہاں کوالیفائر 1 میں ایک زبردست کامیابی اور کوئٹہ چار سیزنز میں تیسری بار فائنل میں!
اب ملین ڈالرز کا سوال سامنے کھڑا تھا، کیا کوئٹہ اپنے پچھلے ریکارڈ کو پسِ پشت رکھتے ہوئے اس مرتبہ نئی تاریخ رقم کرپائے گا؟ وہ بھی پشاور زلمی کے خلاف کہ جس کے ہاتھوں وہ ایک بار فائنل میں اور ایک مرتبہ ایلی منیٹر میں شکست کھا چکا ہے؟ گلیڈی ایٹرز نے ان سوالوں کا تسلّی بخش جواب دیا کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں جہاں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی، وہاں کوئٹہ نے سیزن کی چوتھی 'پشتون ڈربی' میں بھی پشاور زلمی کو بُری طرح شکست دی اور یوں تمام مفروضے غلط ثابت کردیے۔
یوں کوئٹہ نے خود کو پاکستان سپر لیگ کی سب سے زیادہ مستقل مزاج ٹیم بھی ثابت کیا، جی ہاں! جیتنے میں، ورنہ ہارنے میں جو مستقل مزاجی ہے اس میں لاہور قلندرز کو کون شکست دے سکتا ہے؟ تفنّن برطرف، کوئٹہ نے اس بار کھیل کے ہر شعبے میں اپنی مہارت ثابت کرکے دکھائی۔
بیٹنگ میں اس کے شین واٹسن کا کوئی مقابل نہیں تھا کہ جنہوں نے سب سے زیادہ 430 رنز بنائے۔ سیزن میں سب سے زیادہ متاثر کرنے والے نوجوانوں میں سے ایک فاسٹ باؤلر محمد حسنین بھی کوئٹہ ہی کی طرف سے کھیلے بلکہ فائنل کے 'مین آف دی میچ' بھی قرار پائے۔ جہاں تک بات قیادت کی ہے تو سرفراز احمد بے مثال نظر آئے۔
فائنل ہی دیکھ لیں کس طرح انہوں نے پشاور کی تمام چالوں کو ناکام بنایا۔ پھر کھلاڑیوں کی باہمی ہم آہنگی بھی واضح نظر آ رہی تھی جو ظاہر کر رہی تھی کہ انتظامیہ نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا کی ہیں۔ مختصر یہ کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک مضبوط اِکائی کی صورت نظر آئے جو چیمپیئن بننے کے حقدار تھے اور بنے بھی۔ اس کامیابی نے گلیڈی ایٹرز کی ان بیڑیوں کو توڑ دیا ہے جو پچھلے سیزنز سے ان کے پیروں میں بندھی چلی آ رہی تھیں۔
کوئٹہ کے چیمپیئن بنتے ہی سرفراز احمد نے بھی اپنے کیریئر کا ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔ انڈر 19 ورلڈ کپ سے لے کر چیمپیئنز ٹرافی تک سب کچھ پانے کے بعد اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ورلڈ کپ ہے۔ کیا سرفراز الیون پی ایس ایل 4 کی کارکردگی رواں سال ورلڈ کپ میں بھی دہرا پائے گی؟ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تبصرے (2) بند ہیں