نیوزی لینڈ میں اب تک ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات
جنوب مغربی بحرالکاحل کے جزیرہ نما ملک نیوزی لینڈ تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں 15 مارچ کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کو اب تک دنیا نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈرن نے ان حملوں کو دہشت گردی قرار دیا ہے جب کہ کئی سیاست دانوں نے اسے ملک کا سیاہ دن بھی قرار دیا ہے۔
ماضی میں برطانوی سلطنت کے زیر تسلط رہنے والے اس ملک کو دنیا کی پر امن ترین ممالک میں بھی شمار کیا جاتا ہے، جہاں دہشت گردی کے واقعات قدرے کم رونما ہوتے ہیں۔
تاہم ایسا بلکل بھی نہیں کہ نیوزی لینڈ میں کبھی کوئی نامناسب واقعہ پیش نہ آیا ہو یا اسے بھی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں پر ایک نظر
نیوزی لینڈ کی گزشتہ 70 سالہ تاریخ میں کئی نامناسب واقعات پیش آئے، تاہم حیران کن طور پر کسی بھی نامناسب اور دہشت گردی کے واقعے میں کبھی بھی اتنے زیادہ افراد ہلاک نہیں ہوئے جتنے 15 مارچ کو مساجد پر کیےگئے حملوں میں لوگ جاں بحق ہوئے۔
گزشتہ 70 سال میں 15 مارچ 2019 کا کرائسٹ چرچ واقعہ نیوزی لینڈ کا دہشت گردی کا سب سے بڑا، ہولناک اور ڈراؤنا واقعہ ہے جس میں 50 سے زائد مسلمان لقمہ اجل بنے۔
آرموئنا شوٹنگ
15 مارچ کو مساجد پر حملے سے قبل نیوزی لینڈ میں دہشت گردی اور فائرنگ کا سب سے بدترین واقعہ 1990 میں پیش آیا تھا۔
نومبر 1990 میں دہشت گرد ڈیوڈ گرے نے نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے کے سب سے بڑے شہر ڈنیڈن کے کوسٹل علاقے میں آرموئنا میں فائرنگ کرکے کم سے کم 13 افراد کو قتل اور 5 کے قریب افراد کو زخمی کردیا تھا۔
اس واقعے کو 15 مارچ سے قبل نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا سب سے بدترین واقعہ قرار دیا جاتا رہا۔
راریمو فائرنگ
آرموئنا واقعے کے بعد نیوزی لینڈ میں سب سے ہولناک واقعہ 1997 میں ملک کے شمالی علاقے راریمو میں پیش آیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب راریمو میں رہائش پذیر ایک خاندان نے رشتہ داروں کے لیے دعوت کا اہتمام کیا تھا۔
اس دعوت کا اہتمام کرنے والے خاندان نے جہاں قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو مدعو کیا تھا، وہیں انہوں نے اپنے ہی ذہنی مریض بیٹے کو بھی دعوت میں شریک رکھا تھا۔
دعوت کا اہتمام کرنے والے جوڑے کا بیٹا اسٹیفن اینڈرسن اس وقت ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا، تاہم والدین کی خواہش تھی کہ وہ بھی اس دعوت میں شامل رہے۔
حیرت انگیز طور پر اسی ذہنی مریض بچے نے دعوت میں فائرنگ کرکے اپنے والدین سمیت مجموعی طور پر 6 افراد کو قتل جب کہ 4 کو زخمی کردیا۔
اس واقعے نے نیوزی لینڈ کے سماج پر برے اثرات مرتب کیے اور ذہنی مریض قاتل کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔
اس واقعے کو 1990 کی فائرنگ کے بعد نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا بدترین دشہت گردی کا واقعہ مانا جاتا تھا، تاہم اب بدترین واقعے کی جگہ مساجد پر دہشت گردانہ حملے نے لے لی ہے۔
انسداد دہشت گردی گرفتاریاں
اس ہولناک واقعے سے قبل 2007 میں نیوزی لینڈ کے اندر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ سرگرمیاں ہونے کی اطلاع پر حکومت تحرک میں آئی تھی۔
2007 میں نیوزی لینڈ پولیس نے ملک بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے پیش نظر بڑے پیمانے پر انسداد دہشت گردی گرفتاریوں کی مہم شروع کی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے قبل ہی 2 درجن کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے بڑے پیمانے پر اسلحہ و بارود برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
پولیس کی ان گرفتاریوں کو سماجی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا اور پولیس پر الزام لگا کہ اس نے غیر قانونی طریقے سے عام اور بے قصور افراد کو بھی گرفتار کیا ہے۔
بعد ازاں 2011 میں نیوزی لینڈ کی عدالت نے 2007 میں گرفتار کیے گئے 13 افراد کو بے قصور قرار دیتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ پولیس نے غیر قانونی طور پر گرفتاریاں کیں۔
طیارہ اغوا
پولیس کی ان کارروائیوں کے بعد 2008 میں نیوزی لینڈ کے ایک چھوٹے طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس طیارے کو نیوزی لینڈ میں رہنے والی صومالیہ کی پناہ گزین 34 سالہ خاتون آشا علی نے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی، جس نے طیارے کے عملے کے 2 ارکان کو چھریوں کے وار کرکے زخمی بھی کردیا تھا۔
طیارہ اغوا کرنے والی لڑکی نے پائلٹ کو دھمکی دی تھی کہ ان کے پاس بم موجود ہے، تاہم پائلٹ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کو کرائسٹ چرچ ایئرپورٹ پر اتارا اور طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔
بعد ازاں نیوزی لینڈ کی عدالت نے آشا علی کو مجرم قرار دیتے ہوئے 9 سال قید کی سزا سنائی۔
نیو کلیئر فری نیوزی لینڈ پروٹیسٹ بمبنگ
1985 میں نیوزی لینڈ نے دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کو پاک کرنے کے لیے پر امن مظاہرے شروع کیے اور نیوزی لینڈ نے اپنے مظاہروں میں خصوصی طور پر فرانس کے ایٹمی پروگرام کو مرکز بنایا۔
جولائی 1985 میں آکلینڈ میں ہونے والے مظاہروں کے دوران نیوزی لینڈ کے بحری بیڑے گرین پیس فلیگ شپ رینبو وریئر پر بم دھماکے سے حملہ کیا گیا۔
اس حملے کے بعد نیوزی لینڈ پولیس نے کارروائی کرتے فرانس کی خفیہ ایجنسیوں کے 2 اہلکاروں کو گرفتار کیا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے دہشت گردانہ دھماکہ کروایا اور ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے مزید مظاہروں کے دوران بھی انہوں نے دھماکوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
نیوزی لینڈ کی عدالت نے گرفتار کیے گئے دونوں اہلکاروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے 10 سال قید کی سزا سنائی۔
سوٹ کیس بم دھماکہ
1984 میں نیوزی لینڈ کے شہر ولنگٹن کی کاروباری عمارت میں سوٹ کیس بم دھماکے کو بھی دہشت گردی کا برا واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس واقعے میں بھی مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ 3 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات تھیں۔
یہ دھماکہ شہر کی معروف کاروباری عمارت کے اندر سوٹ کیس بم کے ذریعے کیا گیا اور پولیس اس واقعے کی حتمی تفتیش کرنے میں ناکام رہی۔
پولیس اینڈ کورٹ کمپیوٹر سینٹر دھماکہ
1980 سے 1985 تک نیوزی لینڈ کو سخت مشکلات کا سامنا رہا اور وہاں ہر سال کوئی نہ کوئی نامناسب واقعہ پیش آتا رہا۔
1982 میں نیوزی لینڈ کی شمالی ریاست کے شہر وانگنوئی میں موجود پولیس، کورٹ اور حکومت کے ریکارڈ کمپیوٹر سینڑ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق کمپیوٹر سینٹر کو حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور ابتدائی طور پر اس حملے کا مقصد سیاسی بتایا گیا۔
اگرچہ اس حملے میں بھی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں، تاہم اس حملے سے حکومت کا ڈیجیٹل ڈیٹا متاثر ہوا اور حکومت کو اس سینٹر کو کئی سال تک بند کرنا پڑا۔
بعد ازاں پولیس نے اس حملے میں ملوث 22 سالہ سیاسی کارکن کو گرفتار بھی کیا جس پر جرم عائد کرکے اسے جیل کی سزا سنائی گئی۔
اس واقعے پر فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں۔
ویتنام جنگ مخالف مظاہرے
امریکا کی جانب سے ویتنام میں لڑی جانے والی جنگ میں نیوزی لینڈ اس کا اتحادی تھا، تاہم نیوزی لینڈ کا عوام اس اتحاد کا مخالف تھا۔
نیوزی لینڈ فوج کی ویتنام جنگ میں بطور اتحادی شمولیت کے خلاف بھی ملک بھر میں 1967 اور 1970 میں مظاہرے ہوتے رہے، جن میں کئی ناخوشگوار واقعات پیش آئے اور ملک کا امن داؤ پر لگا رہا۔