تھائی لینڈ: بادشاہ نے اپنی بہن کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر مسترد کردیا
تھائی لینڈ کے بادشاہ ماہا وجیرالونگ کورن نے اپنے بڑی بہن اوبولرتنا کو شاہی خاندان کی سیاست میں داخلے کو حساس اور 'نامناسب' قرار دیتے ہوئے وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہونے سے روکنے کا حکم جاری کردیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کے بادشاہ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ جدید دنیا میں اکثر شاہی خاندانوں کا یہ رواج ہے کہ وہ سیاست اور انتخابی عمل میں براہ راست شامل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
قبل ازیں 67 سالہ اوبولرتنا نے تھائی لینڈ کی سیاسی جماعت تھائی راکساچارٹ پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار بننے کا اعلان کیا تھا۔
اوبولرتنا کی جانب سے جس جماعت کا انتخاب کیا گیا تھا وہ ملک کی فوج کے ترجیحی امیدوار اور موجودہ وزیراعظم پریوتھ چینوچا کے خلاف تھی، جو 2014 سے برسر اقتدار ہیں جب فوج نے سابق حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
ان کے انتخاب لڑنے سے سیاست میں شاہی خاندان کی جانب سے کردار ادا نہ کرنے کی روایت شکنی ہوجاتی، تاہم بادشاہ نے فوری طور پر انہیں روکا اور حکم بھی جاری کردیا۔
تھائی لینڈ کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہی خیال تھا کہ اوبولرتنا اس وقت تک وزیراعظم کی امیدوار نہیں بن پائیں گی جب تک ان کے چھوٹے بھائی اور بادشاہ منظوری نہ دیں۔
شہریوں کے اندازے اس وقت درست ثابت ہوئے جب بادشاہ ماہا وجیرالونگ کورن نے حکم جاری کیا، جس کو ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا۔
بادشاہ کے حکم میں کہا گیا تھا کہ شاہی خاندان کے کسی بھی رکن کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ برطانیہ، جاپان، ناروے، بھوٹان سمیت دنیا کے دیگر شاہی خاندان سیاست سے دور ہیں اور انتخابی عمل سمیت کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔
برطانیہ کی ملکہ ایلزبیتھ دوم کو دنیا کی طویل بادشاہت کا ریکارڈ حاصل ہے لیکن وہ اور ان کے خاندان کے تمام اراکین سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے ہیں، تاہم انہیں ملک اور ملک سے باہر سفر کو سرکاری دورے کی حیثیت دی جاتی ہے۔
ملکہ برطانیہ مشاورتی کردار ادا کرسکتی ہے جس کے لیے وہ وزیراعظم سے مسلسل ملاقات کرتی ہیں اور اہم قانون سازی پر دستخط کرتی ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کئی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں شاہی خاندان امور مملکت چلاتے ہیں اور طاقت کا مرکز ان کا خاندان اور بادشاہت ہے۔