اپنے بچوں کو ہر حال میں جیتنا نہیں مقابلہ کرنا سکھائیں
وہ خاتون کلاس روم میں بیٹھی رو رہی تھیں، آنسو چھپانے کے لیے سرجھکاتیں اور پلو سے منہ پونچھ لیتیں، ساتھ ہی ایک 7 یا 8 سال کا بچہ انتہائی پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا۔
مجھے تشویش ہوئی کہ اسکول میں ’والدین اساتذہ بیٹھک‘ جسے پیرنٹس ٹیچر میٹنگ کہتے ہیں، کے دوران بچے کی والدہ کیوں آنسو بہارہی ہیں؟
اپنی اہلیہ سے ان خاتون کی دلجوئی کی سفارش کی تو اہلیہ 2 منٹ میں ہی تمام ’معلومات‘ لے کر میرے پاس آگئی تھیں، جس کے مطابق محترمہ کے بچے نے فرسٹ ٹرم میں پہلی پوزیشن لی تھی لیکن مڈٹرم میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے پر وہ روہانسی ہوئیں اور کلاس ٹیچر سے لڑ پڑیں۔
میں اس خاتون کے قریب کھڑے سہمے ہوئے اس بچے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ان کے اس رویے کا اس کمسن پر کیا اثر ہوا ہوگا؟
یہ صرف ان خاتون کی بات نہیں بلکہ بدقسمتی سے یہ کہانی تو تقریباً ہر دوسرے گھر کی بن چکی ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی مشین بنانا چاہتی ہیں۔ کہیں کہیں، ماں باپ دونوں ہی بچوں پر زیادہ نمبر لانے کے لیے زور ڈالتے ہیں، لیکن اکثر واقعات میں زیادہ نمبر لانے کی خواہش ماؤں کی ہوتی ہے۔ جو بچوں کے امتحانات سے کئی روز قبل ہی خود پر بھی ’امتحانی کیفیت‘ طاری کرلیتی ہیں اور پھر بچے کو گھنٹوں پڑھانا، کھیلنے کودنے پر پابندی لگانا، کہیں آنے جانے کی ممانعت، ڈانٹ ڈپٹ اور سختی معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔
ہر وقت بچے کے سامنے نمبروں کی باتیں کرنا، ان سے تقاضا کرنا، مطالبہ کرنا کہ اسے سب سے زیادہ نمبر لے کر پہلی پوزیشن ہی حاصل کرنا ہوگی۔ اس غیر معمولی دباؤ سے بچے کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے صرف اس بچے کی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ یہ پوری صورتحال اس بچے سے جڑے لوگوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
ہمیشہ پہلی پوزیشن اور زیادہ نمبر لینے کی دوڑ ہمارے نونہالوں کی زندگیوں میں کتنی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں، اس کا ہم میں سے اکثر کو اندازہ ہی نہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے سینئر ڈاکٹر عاطف سعید انجم جو بچوں کے ذہنی امراض سے متعلق امور کے ماہر بھی ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ غیر معمولی دباؤ اور سختیاں کس طرح بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی اور ان کے مزاج میں کیسی منفی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔
بچوں کے مزاج میں ضد اور چڑچڑاہٹ
ایسے بچے جن کی عمر 5 سے 12 سال ہوتی ہے، اگر ان پر پڑھائی کے دوران غیر معمولی دباؤ اور پابندیاں لگائی جائیں تو ان کے مزاج میں سختی، طبیعت میں ضد، اکڑ اور چڑچڑا پن آجاتا ہے۔
قدرتی طور پر بچے شرارت کرنا اور آزادی کے ساتھ کھیل کود پسند کرتے ہیں، کمسنی میں بے جا سختیوں اور تفریح کے اوقات میں بھی پڑھنے لکھنے سے بچوں کے مزاج میں انتہائی منفی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ زیادہ نمبر لینے یا پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بچوں پر جو دباؤ ڈالا جاتا ہے اس کے باعث ان کی طبیعت میں چڑچڑا پن اور ہٹ دھرمی آجاتی ہے۔
ڈاکٹر عاطف کہتے ہیں کہ ایسے بچے اپنے والدین سے مہنگا کھلونا، کھانے کے لیے کوئی مضرِ صحت چیز یا کہیں جانے کی ضد کرتے ہیں اور اپنی اس ضد کو پورا کروانے کے لیے وہ شدید احتجاج کرسکتے ہیں اور بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ خود کو بھی نقصان پہنچا لیتے ہیں۔
تنہائی پسند اور ہم جماعتوں سے نفرت
بچوں کے سامنے والدین کی جانب سے اکثر اوقات پوزیشن لینے اور زیادہ نمبر حاصل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، اس دوران والدین دیگر بچوں کا تذکرہ کرتے ہیں، اپنے بچوں سے ان کا موازنہ کرتے ہیں اور بعض اوقات ڈانٹ ڈپٹ کے دوران بچوں سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے فلاں بچے نے پہلے آپ سے کم نمبر لیے مگر اس بار زیادہ حاصل کرلیے، فلاں بچے کی لکھائی آپ سے اچھی ہے اور فلاں بچہ ہی ہر بار پوزیشن کیوں لیتا ہے، آپ کیوں نہیں لے سکتے؟
بچوں کے ساتھ اس نوعیت کی بات چیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے ہم جماعتوں سے دُور ہوجاتے ہیں، ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں، ان میں شئیرنگ کرنے کی عادت نہیں پنپتی اور وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔
اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا
اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اسکول میں اپنے بچوں کی موجودگی میں ہی ٹیچر سے میٹنگ کے دوران جھگڑنے لگتے ہیں اور اپنے بچوں کے کم نمبروں کی وجہ سے اساتذہ سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال بچے کی نفسیات پر انتہائی منفی اثر ڈالتی ہے اور یوں ان حالات کا سامنا کرنے والے بچے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا شروع کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر عاطف سعید کے مطابق ایسے بچے کم نمبر لینے کی صورت میں یا امتحان میں ناکام ہوجائیں تو اس کی ذمہ داری اپنے ٹیچر پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ مختلف کہانیاں گھڑنا شروع کردیتے ہیں، کبھی پیپر اچھا نہ ہو تو گھر آکر یہ کہنا کہ میرے پیٹ میں درد ہورہا تھا یا یہ بہانہ بنانا کہ مجھے فلاں بچہ پیپر دینے کے دوران تنگ کرتا رہا۔
ایسے بچے بڑے ہوکر فیصلہ ساز نہیں بن سکتے، ان میں بروقت فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، وہ ناکام ہوں تو اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور ان کی کامیابی بھی دوسروں کی مرہون منت ہوتی ہے۔
سب سے بڑہ خطرہ
ہمیشہ اول نمبر لینے اور کامیابی حاصل کرنے کی اس ریس میں بعض اوقات بچے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ کئی اپنی جانوں کو بھی داؤ پر لگا لیتے ہیں۔ ایسے بچے جنہیں اپنے بڑوں کی جانب سے زیادہ نمبر لینے اور صرف جیتنے کی تربیت ملتی ہے، جن کی شکست اور ناکامیوں کو قبول نہیں کیا جاتا وہ بچے جب ہائی اسکول میں پہنچتے ہیں تو ان کی نفسیاتی کیفیت انتہائی پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
ایسے بچے ناکام ہونے کی صورت میں اپنی زندگی تک ختم کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال گلگت بلتستان میں الگ الگ واقعات میں میٹرک اور انٹر کلاس کے 4 بچوں نے کم نمبر آنے اور ناکام ہونے کی صورت میں خود کشیاں کیں۔
والدین کیا کریں؟
والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھا پڑھے، زیادہ نمبر حاصل کرے، پوزیشن لے اور یہ خواہش ناجائز نہیں۔ مگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے بچوں کو روبوٹ بنا دینا اور ان سے ان کا بچپن چھین لینا کسی طور پر بھی قابل تعریف نہیں ہے۔
ہم سب اپنی زندگیوں میں ہار جیت، شکست اور فتح کا مزہ چکھتے رہتے ہیں، زندگی چلنے، رکنے، گِر کر سنبھلنے اور چلتے رہنے کا ہی نام ہے۔ کامیابی حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے، شکست کے لیے کوئی میدان میں نہیں اترتا، جیتنا سب ہی چاہتے ہیں، لیکن اس جیت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ قواعد بنالیے جائیں تو بہت بہتر رہے گا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو جیتنے اور ہر میدان میں کامیاب ہونے کے بجائے انہیں صرف محنت کرنا سکھائیں، انہیں بتائیں کہ وہ نتائج کی فکر سے بے فکر ہوکر دل لگا کر پڑھیں اور محنت کریں۔
اگر بچہ کم نمبر حاصل کرتا ہے یا ناکام ہوتا ہے تو اس کی دلجوئی کریں، اسے شکست سے لڑنا سکھائیں، اس سے بیٹھ کر بات کریں کہ کوئی بات نہیں اگر آپ کم نمبر لائے ہیں تو اگلے سال زیادہ محنت کرکے زیادہ نمبر حاصل کرلیجیے گا۔ اپنے بچے کو یہ یقین دلائیں کہ ان کی ناکامی کی صورت میں بھی آپ اس سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں۔
اگر آپ کا بچہ روزانہ باقاعدگی سے اسکول جاتا ہے، وقت پر ہوم ورک کرتا ہے، اسکول سے اس کی شکایات نہیں آتیں، تو اس پر غیر معمولی دباؤ نہ ڈالیں۔
بچے اپنا کثیر وقت ذہنی دباؤ میں گزارتے ہیں، اسکول جانا، پھر ٹیوشن اور پھر دینی تعلیم حاصل کرنا۔
اپنے بچوں کے اوقات کار متعین کریں، اسکول اور ہوم ورک کے علاوہ ان کی کھیلوں میں بھی حوصلہ افزائی کریں۔ دن میں چند لمحات نکال کر ان سے بیٹھ کر بات کریں، ان کے پورے دن کی روٹین سنیں، انہیں ایک دوست کی طرح سمجھائیں، اپنا رعب و دبدبہ ڈالنے کے بجائے ان کے ساتھ نرم رویہ اپنائیں۔
اس کے علاوہ اسکولوں میں ایسے تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی ضرورت ہے جو بے چینی، مایوسی، غصہ اور عجیب رویہ رکھنے والے بچوں کی کاؤنسلنگ کرسکیں اور ان کے والدین کو بھی اس عمل میں شامل کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں