کردوں پر حملہ کیا تو ترکی کو معاشی طور پر تباہ کردیں گے، امریکا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کی صورت میں اگر اس نے کرد فوج پر حملے کیے تو امریکا ترکی کو معاشی طور پر تباہ کردے گا۔
اس کے ساتھ انہوں نے ’کردوں‘ کو بھی تنبیہہ کی کہ وہ انقرہ سے محاذ آرائی سے گریز کریں۔
دوسری جانب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو، داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی کرد افواج کے مستقبل کے حوالے سے امریکا اور ترکی کے درمیان کھڑے ہونے والےتنازع پر اتحادیوں کو یقین دہانی کروانے کے لیے علاقائی دورے پر ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’اگر کردوں کو نشانہ بنایا تو ہم ترکی کو تباہ کردیں گے، اس کے ساتھ انہوں نے 30 کلومیٹر طویل ’سیف زون‘ قائم کرنے کا بھی عندیہ دیا۔
تاہم انہوں نے اس حوالے سےکوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ سیف زون کون قائم کرے گا، کہاں قائم ہوگا یا اس پر عملدرآمد اور اس کے لیے رقم کی فراہمی کو یقینی بنائے گا ۔
یہ بھی پڑھیں: ’شام سے امریکی فوج کے انخلا میں 4ماہ لگ سکتے ہیں‘
واضح رہے کہ سرزمینِ شام پر امریکی سربراہی میں داعش کے خلاف جاری آپریشن میں کرد اکثریت پر مشتمل سیریئن ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) زمینی کارروائیوں میں پیش پیش رہتی ہے۔
دوسری جانب ترکی امریکا کے اس مضبوط اور اہم اتحادی ، کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کو کردستان ورکر ز پارٹی سے منسلک دہشت گرد تنظیم تصور کرتی ہے جو طویل عرصے سے ترکی میں متحارب ہے۔
اسی سلسلے میں ایک اور ٹوئٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے امریکی افواج کے شام سے انخلا کی صورت میں متوقع خدشات کا بھی ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شام میں داعش کے خاتمے کے لیے امریکا کی طویل مدتی پالیسی سے سب سے زیادہ فائدہ روس ، ایران، اور شام کو ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا لیکن اب وقت ہے کہ اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے اپنے فوجیوں کو واپس بلالیا جائے۔
ہم کردوں کا تحفظ کریں گے
امریکی صدر کی دھمکی پر ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے ردِ رعمل دیتے ہوئے کہا ترکی کی خواہش ہے کہ امریکا ہماری اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی قدر کرے اور دہشت گردی کے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہو۔
انہوں نے بھی ٹوئٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ داعش اور کرد تنظیموں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں اور ہم ان تمام کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد آپ کے اتحادی اور شراکت دار نہیں ہوسکتے۔
ایک دوسری ٹوئٹ میں انہوں نے شامی کردوں کا ترکی میں موجود کردوں کی تنظیم پی کے کے سے موازنہ کرنے کو سنگین غلطی قرار دیا جو امریکا کی دہشت مرتب کردہ دہشت گردتنظیموں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی کردوں کےخلاف نہیں بلکہ تمام دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھے گا ، ہم کردوں اور دیگر شامی عوام کی دہشت گردی کے خطرے سے حفاظت کریں گے۔
امریکی انخلا اور کرد تنازع
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گززشتہ برس دسمبر میں شام میں داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا۔
اس حوالے سے ترک صدر نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں جنگ زدہ شام سے انتہاپسندی کی وجوہات کے خاتمے سے متعلق ترکی کی حکمت عملی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے انخلا کا صحیح فیصلہ کیا‘۔
دوسری جانب کردوں کی قیادت میں شامی ڈیموکریٹک فورسز نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے قبل از وقت فوج واپس بلانے کے سنگین نتائج ہوں گے اور یہ فیصلہ خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
بعد ازاں امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل کردش اتحادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ترکی سے ضمانت لی جائے گی‘۔
جس پر ردعمل دیتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے شام میں امریکی حمایت یافتہ کُرد ملیشیا سے متعلق جون بولٹن کے بیان کو ’سنگین غلطی‘ قراردیا تھا۔