عریاں مناظر اور ننگی گالیاں، کیا یہی ہے نیا بھارتی فارمولہ؟ (دوسرا حصہ)
اس بلاگ کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں
ایکتا کپور کے نام سے شاید ہی کوئی پاکستانی ڈرامہ و فلم ناظر ہو جو ناواقف ہو۔ ایکتا کپور ماضی کے معروف فلم اسٹار جیتندر کی بیٹی اور ماضی قریب کے فلاپ اداکار تشار کپور کی بہن ہیں۔ ایکتا کپور کا ادارہ ’بالاجی ٹیلی فلمز لمیٹڈ‘ بھارت کا سب سے نفع بخش ادارہ ہے جو سوپ، ڈرامہ سیریز اور فلمیں بناتا ہے۔
ہندی ڈرامہ میں ساس بہو کی تکرار سے کروڑوں روپے کمانے والی ایکتا کپور نے دوسروں کی دیکھا دیکھی نیٹ فلیکس اور امیزون پرائم ویڈیو کی طرز پر 2015ء میں ALTBalaji کے نام سے آن لائن آن ڈیمانڈ ویڈیوز دکھانے والا ادارہ بنایا اور اس کے بینر تلے ویب سیریز اور مختصر فلمیں بنانا شروع کردیں۔ یہ ادارہ اب کم بجٹ کی فلمیں بھی بنارہا ہے۔ آپ اس پلیٹ فارم پر جائیں یا یوٹیوب پر اس کا چینل سبسکرائب کریں تو آپ دیکھیں گے کہ 90 فیصد سے زیادہ مواد جو ALTBalaji بنارہا، وہ عریاں مناظر اور فحش مکالموں سے بھرپور ہے۔
ایک پریس بریفنگ میں ان سے صحافی نے سوال کیا کہ وہ فحاشی سے بھرپور ویب سیریز کیوں بنارہی ہیں تو انہوں نے بنا شرمندہ ہوئے بھرپور اعتماد سے جواب دیا کہ انہیں سیکس دیکھنے میں خوشی ملتی ہے، کسی کو فحش مناظر دیکھنے سے اس لیے مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں سیکس از گریٹ۔ ایکتا کپور کا کہنا تھا کہ بنا مرضی کے سیکس کرنا یا دکھانا غلط ہے۔ باہمی رضامندی سے اگر بوس و کنار یا جسمانی اختلاط ہورہا ہے تو اس کی تمثیل ٹی وی پر دکھانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں منافقت نہیں کرنی چاہیے۔ ناظرین اگر فحش مناظر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے مناظر کو فلمانے سے نہیں گھبرانا چاہیے۔
ایکتا کپور کی فحش مناظر اور گالیوں سے بھرپور سیریز XXX Uncensored ریلیز ہوئی تو اس نے چھپڑ پھاڑ نفع کما کر دیا۔ اس کے بعد اغوا برائے تاوان کے موضوع پر بنائے جانے والی سیریز ’اپہارن‘ میں بھی ایکتا کپور نے وہی فارمولہ دہرایا اور ماہی گل اور دیگر معاون اداکاراؤں کو بطور سیکس آبجیکٹ پیش کرکے ناظرین کو راغب کیا۔
ایکتا کپور کی اسٹریٹجی، بھارت کے ہر ویب سیریز میکر کی اسٹریٹجی بن چکی ہے۔ نیٹ فلیکس، زی سیریز اور امیزون پرائم وغیرہ جیسے ادارے جنہیں مستند پروڈکشن ہاؤسز سے روزانہ نت نئے آئیڈیاز اور اسکرپٹ پیش کیے جاتے ہیں، ان کی ترجیح بھی فحش کلمات اور برہنہ مناظر سے لبریز کہانیوں کو عکس بند کرنا ہے کہ سب کی دوڑ زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنی جانب مبذول کرنے کی ہے۔
پرانا بھارتی ڈرامہ جس میں اداکاروں کے الٹے سیدھے لرزتے کلوز اپس لے کر پس پردہ عجیب سی آوازیں بجائی جاتی تھیں، ان ڈرامہ سیریز کے کردار کئی بار مرتے اور پھر زندہ ہوجاتے، 20، 20 اقساط پر محیط شادی کی تقریبات، ساس بہو کے جھگڑوں پر 200، 200 اقساط کے سوپ بنائے جاتے تھے، اب تیزی سے عنقا ہوتا جارہا ہے۔ اب تشدد، گالم گلوچ اور فحش مناظر ان کی جگہ لے رہے ہیں۔
بھارت کا سنجیدہ نقاد اور ناظر بھی اب یہ کہتا ہے کہ ’پاکستانی ڈرامہ‘ اسکرپٹ اور اداکاری میں بھارتی ڈرامے سے کہیں بہتر ہے۔ بھارتی چینلز زندگی اور کلر وغیرہ پر پاکستانی ڈرامے شوق سے دیکھے جارہے ہیں۔ بھارتی ڈرامہ کتنی اقساط کے بعد ختم ہوگا، اس کے بارے میں خود ڈرامہ بنانے والے بھی نہیں جان رہے ہوتے کہ سب کچھ ٹی آر پیز اور بزنس سے مشروط ہے جبکہ پاکستانی ڈرامہ سیریل 26 اقساط سے آگے نہیں جاتا اسی لیے بھارتی ناظر اسے ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ڈرامہ سیریل کی اقساط طے ہیں اور ڈرامہ کا معیار طوالت کی وجہ سے خراب نہیں ہوپائے گا۔
پاکستانی ڈراموں میں فحش کلمات اور مناظر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے کہ پیمرا نام کا لولا لنگڑا ادارہ تو ڈراموں کے متن اور عکس بندی پر نظر رکھنے سے قاصر ہے مگر پاکستانی ناظر کا بھرپور چیک اینڈ بیلنس ہمارے ڈراموں پر ہوتا ہے۔ کسی قسم کے مخرب الاخلاق مواد کے نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کا شدید ردِعمل آتا ہے اور پیمرا پر وہ رپورٹ بھی ہوتا ہے۔
بھارتی ڈرامہ یکسانیت کا شکار پہلے بھی تھا جب ہر کہانی چند اقساط کے بعد ساس بہو روزمرہ چپقلش کا روپ دھار لیتی تھی اور اب بھی ہے جب تنگ لباس، چست فحش فقروں اور برہنگی سے ہر کہانی کو چسکے دار رخ دیا جارہا ہے۔ پاکستانی ڈرامہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں ’اڈاری‘، ’آنگن‘، ’پیارے افضل‘، ’ہم سفر‘، ’زندگی گلزار ہے‘، ’خان‘، ’سنگِ مرمر‘، ’رنگریزہ‘ جیسا اسکرپٹ لکھا اور عکس بند کیا گیا اور اسے ناظرین نے خوب سے سراہا بھی۔
پاکستانی ڈراموں میں بار بار گردن ہلانا، آنکھیں گھمانا اور چھوٹی چھوٹی بات پر بڑے بڑے تاثرات دینے سے گریز کیا جاتا ہے جو انڈین ڈراموں میں ڈرامہ کا عنصر بڑھانے کے لیے شامل کرنا عمومی ہے۔
پاکستانی اداکار کے پاس NAPA اور آرٹس کونسل کی صورت میں بہت محدود مواقع ہیں کہ وہ اپنی اداکاری کو جلا بخش سکے۔ لیکن بھارت کا تھیٹر نہایت کمال ہے اور وہاں اداکاری سکھانے والے ادارے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی ٹی وی انڈسٹری پر آپ کو نعمان اعجاز، ثانیہ سعید، آصف رضا میر، ثمینہ پیرزادہ، حنا دلپذیر، فردوس جمال اور محمود اسلم جیسا ایک اداکار دکھائی نہیں دیتا ہے۔
پاکستانی سینما سمیت ہر پاکستانی چینل پر بھارتی فلموں، ڈراموں اور اشتہارات کی بھرمار ہے۔ سپریم کورٹ نے بھارتی مواد ٹیلی ویژن پر دکھانے کی پابندی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے بھارتی ڈرامہ اب نہیں دکھایا جارہا مگر ہمارے ڈسٹری بیوٹرز آج بھی بھارت سے مہنگے داموں پر فلم خرید کر اس کی ریلیز کے دن چلاتے ہیں جبکہ پاکستان کا فلم میکر اپنی فلم کی ریلیز کے انتظار میں کئی کئی ماہ تک انہی ڈسٹری بیوٹرز کے نخرے سہنے کے بعد سینما ہال میں اپنی فلم کو لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
بھارت کے ساتھ حالات بگڑتے ہیں تو وقتی طور پر سوشل میڈیا اور مخصوص ڈرائینگ رومز میں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں بین کردیا جائے مگر جو لابی پاکستان میں ڈسٹری بیوشن کے سیٹ اپ سے وابستہ ہے، اس کی جڑیں حکومت میں اتنی کھبی ہوئی ہیں کہ بھارتی فلموں کا پاکستان میں بین ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔
آپ کو حکومتی یا کسی بھی نجی ادارے کی سطح پر ایک بھی سنجیدہ اسٹڈی پڑھنے کو نہیں ملے گی کہ بھارتی فلموں اور ڈراموں کی اتنی تعداد میں درآمد کے پاکستانی معاشرے، فلم اور میڈیا انڈسٹری پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ ریاست اس سارے معاملے میں کبوتر کا کردار ادا کررہی ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ فلم سینسرشپ ایکٹ 1963ء Cencorship of) films act 1963) کے تحت اور اس کے بعد فلم سینسرشپ و فلمی قوانین و ضوابط ایکٹ 1980ء (1980 کے Cencorship of films (and film rules Act میں بھارتی فلموں یا ایسی فلمیں اور ڈرامے جن میں بھارتی اداکاروں نے کام کیا ہو، کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ چند برسوں کے بعد وزارتِ معاشیات نے تجارتی پالیسی آرڈر 2006ء (Pakistan's Trade Policy Order 2006)، اور پھر اسی کے ترمیم شدہ قانون تجارتی پالیسی آرڈر 2010-2009 (Trade Policy Order 2009-2010) میں بھی بھارتی فلموں کی پاکستان میں درآمد پر پابندی عائد کی۔ مگر ایسا فقط کاغذوں میں ہے۔
عملی طور پر ہر بھارتی فلم پاکستان میں ریلیز ہورہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستانی فلمیں بھی بھارت میں نمائش کے لیے پیش ہوں، جیسے بھارتی فلمیں یہاں ریلیز کی جاتی ہیں۔ نیز پاکستان کے ہر ڈسٹری بیوٹر کو باقاعدہ قانوناً پابند کیا جائے کہ وہ پاکستانی فلم کو ریلیز کرنے پر ترجیح دے گا اور اس کے مقابلے میں کوئی بھی بھارتی یا ہولی وڈ کی فلم نہیں لگائے گا۔
واپس بھارتی ڈرامہ میں دکھائے جانے والے مواد کی طرف آتے ہیں۔ میرے چند دوستوں کا خیال ہے کہ بھارتی ویب سیریز پہلی بار نیٹ فلیکس اور امیزون پرائم جیسے اداروں کی بدولت سینسر کی حدود و قیود سے آزاد ہوا ہے۔ یہ وقتی دور ہے۔ آئندہ چند برسوں میں بھارت فحاشی اور گالیوں سے پاک ڈرامہ بنانے لگ جائے گا۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ گیمز آف تھرونز کا پہلا سیزن فحاشی سے پُر تھا، مگر جب بنانے والوں نے دیکھا کہ ناظرین اس سیریز کے کرداروں اور مکالموں کے سحر میں گرفتار ہیں تو آنے والی سیریز میں سے فحاشی بتدریج کم کردی گئی۔
لیکن میں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ سوشل میڈیا پر میرے دو بھارتی دوست ہیں۔ دونوں ممبئی میں میڈیا ہاؤسز سے وابستہ ہیں۔ ان سے اس حوالے سے تفصیلی مباحثہ ہوا۔ خلاصہ یہی تھا کہ بھارتی ڈراموں میں فحش مناظر اور ننگی گالیوں والے اسکرپٹ کو ترجیح اس لیے نہیں دی جارہی ہے کہ چند برسوں بعد اچھے اسکرپٹ کی آمد کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا بلکہ حال تو اب یہ ہے کہ ڈرامہ سیریز خواہ وہ کتنے ہی سنجیدہ موضوع پر کیوں نہ ہو، ان میں بھی فحش مکالمے اور عریاں مناظر بھرے جارہے ہیں۔ یہ رواج کم از کم آئندہ 10 برس تک تو کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ 2019ء میں مرزا پور اور سیکرڈ گیمز کے اگلے سیزنز کی ریلیز کے بعد یہ مزید فروغ پائے گا۔
ہمارے پاکستانی پروڈکشن ہاؤسز بھی اب مختلف بھارتی اور بین الاقوامی ویب چینلز کے لیے ویب سیریز بنانے جارہے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اس میں بھارت کے موجودہ رواج کی نقالی کرتے ہیں یا پاکستانی ڈرامہ کی روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جاندار موضوعات پر سنجیدہ ڈرامہ بناتے ہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں