الوداع سال 2018: لیکن یہ وقت گزرنے کا احساس کیسے ہوتا ہے؟
کیا سورج کے طلوع و غروب کے سلسلے میں کوئی تبدیلی آتی ہے؟ کیا زمین اپنے محور اور مدار کے ابدی راستوں پر ہی قائم ہے؟ اور وقت ناپنے کے پیمانوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی؟ سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے ہوں یا دن، ہفتہ، مہینہ ہو یا سال سب جوں کے توں ہی رہتے ہیں ناں؟ تو پھر یہ سوال کیوں جنم لیتا ہے؟ ارے بھئی ابھی تو 2018ء شروع ہوا تھا، دیکھیے ختم بھی ہوگیا اور پتہ ہی نہیں چلا۔
انسانوں پر گزرنے والی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے سائنسدان اور ماہرین نفسیات ایک عرصے سے جستجو میں ہیں کہ جب ماہ و سال کے الٹ پھیر میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ہمیں وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس کیوں ہوتا ہے؟َ
ماہرین نفسیات اس حوالے سے کئی تجربات کرچکے ہیں اور شش و پنج کا شکار ہیں کیونکہ مختلف تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے دماغ کا وقت کو ’پراسیس‘ کرنے کا طریقہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ بعض نیورو سائنٹسٹ کے نزدیک دماغ ’ٹائم مشین‘ ہے۔ فلسفی وقت کے وجود پر بحث کرتے ہیں۔ طبیعات میں اس کی تشریح انتہائی پیچیدہ ہے اور یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ ماضی، حال اور مستقبل کے اس سادہ انداز میں منظم نہیں ہوتا جس طرح ہم اسے سمجھتے ہیں۔ اس کی جتنی تفصیل بیان کی جائے آخر میں سوائے حیرانی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیے: وقت کی پابندی کو عادت بنانا کیسے ممکن؟
گزشتہ کئی برسوں میں اس راز سے پردہ اٹھانے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔
2005ء میں میونخ کی ایک یونیورسٹی میں 14 سے 94 برس کے 499 افراد پر ایک تجربہ کیا گیا۔ ان سے وقت گزرنے کی رفتار کے بارے میں سوالات کیے گئے اور ’بہت سست‘ اور ’بہت تیز‘ کے پیمانہ بنائے گئے۔ ان شرکا سے ایک ہفتے، ایک ماہ اور بعض سے سال بھر میں بیتے وقت کے بارے میں احساسات دریافت کیے گئے۔ اکثر کو وقت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوا۔
عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ بڑی عمر کے افراد کو وقت کی رفتار میں تیزی کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق میں شریک افراد کے جوابات اس کے برعکس تھے۔ لیکن جب طویل دورانیے یا دہائیوں کے بارے میں احساس سے متعلق پوچھا گیا تو ایک الگ پیٹرن سامنے آیا۔ 40 برس سے زیادہ عمر کے افراد کا خیال تھا کہ ان کے بچپن میں وقت اتنی تیزی سے نہیں گزرتا تھا لیکن ٹین ایج اور پھر جوانی کے دور میں اس کی رفتار جیسے اچانک بڑھ گئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہونے کے ٹھوس اسباب ہیں۔ اگر کوئی شخص ناول پڑھنے کا شوقین ہے، وہ اپنے کسی پسندیدہ مصنف کے ناول کا مطالعہ شروع کرتا ہے، کہانی کی دلچسپی اسے کتاب سے جوڑے رکھتی ہے اور کسی موقعے پر وہ سر اٹھا کر دیکھتا ہے تو اسے گزرے وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ہم خوش رہیں تو ہمیں وقت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر بددلی کے ساتھ کوئی کام کرنا پڑے یا اکتاہٹ کا احساس شدید ہو تو وقت کی سست روی کا احساس بھی شدید تر ہوجاتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک ہمارا دماغ نئے تجربات کو محفوظ کرتا ہے جب کہ معمول کی بہت سی باتوں کو یادداشت میں جگہ نہیں دیتا۔ اس لیے گزرے وقت کے بارے میں ہمارا احساس ہماری یادداشت میں ایسے تجربات اور واقعات کے اضافے پر منحصر ہے جو خلافِ معمول یا خوشگوار ہونے کی وجہ سے ذہن پر نقش ہوئے۔
مثلاً آپ کچھ روز کے لیے چھٹیاں منانے گئے، وہ دورہ تفریح سے بھرپور رہا، بہت کچھ نیا دیکھا تو اس کی یادیں اتنی ہی طویل مدت تک ذہن پر نقش رہیں گی۔ اس طرزِ احساس کو ’ہولیڈے پیراڈاکس‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے، جس کے مطابق یادگار لمحات کے ذہن میں محفوظ ہونے اور بار بار یاد آنے سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کیوں بڑھتی عمر کے ساتھ ہمارا یہ احساس بھی بڑھتا چلا جاتا ہے کہ وقت اب تیزی سے گزر رہا ہے۔
مزید پڑھیے: زندگی کی حقیقت بیان کرنے والے ’اہم‘ اصول
بچپن اور دورِ نوجوانی میں ہمیں کئی نئے تجربات ہوتے ہیں، ہم بے شمار نئی باتیں سیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی ایک خاص معمول پر آجاتی ہے اور غیر معمولی یادیں کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ابتدائی عمر کے یادگار تجربات کے نقوش ذہن میں قائم ہوتے ہیں اور بیچ کا دورانیہ معمول ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہن کی سوانحی یادداشت سے محو ہوجاتا ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ وقت کے تیزی سے گزرنے کے احساس سے متعلق 2017ء میں ’Why Time Flies‘ یعنی وقت کیوں اُڑا جاتا ہے کے عنوان سے ایک کتاب شایع ہوئی۔ اپنے موضوع ہی سے دلچسپ محسوس ہونے والی اس کتاب کے مصنف ایلن برڈک، معروف امریکی جریدے نیویارکر سے منسلک ہیں۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوعات پر بلاگ بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے وقت گزرنے کے احساس سے متعلق مختلف پہلوؤں کو اپنی کتاب کا موضوع بنایا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’1970ء کی دہائی میں وقت کی رفتار اور اس کے گزرنے کے احساس کے مابین تعلق کو ریاضیاتی انداز میں بیان کرنے کے فارمولے بھی سامنے آئے۔ لیکن برڈک کے نزدیک وہ فارمولے بوگس تھے‘۔ انھوں نے اس سوال پر بحث کی ہے کہ کیا اس بات کا کوئی سائنسی جواب بھی ممکن ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’اس جستجو میں کئی تحقیقی سروے بھی کیے گئے جن میں پوچھا گیا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس بھی کیا بڑھتا چلا جاتا ہے؟‘
اس میں اہم سوال یہ ہے کہ ماضی میں وقت گزرنے سے متعلق اپنے احساس کا موازنہ آج سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ یہ سوال دراصل ایک تصوراتی تجربے کے بارے میں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اگر آپ سے پوچھتا ہوں کہ پچھلے منگل کو آپ نے دوپہر کے کھانے میں کیا کھایا تھا؟ تو اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا، لیکن بالفرض کوئی روزانہ دوپہر کے کھانے میں ایک ہی طرح کا سینڈوچ کھاتا ہو تو بظاہر وہ اس سوال کا فوراً جواب دے سکتا ہے۔ لیکن پھر یہ سوال کیا جائے کہ 10 سال کی عمر میں عام طور دوپہر کے کھانے میں کیا کھایا کرتے تھے تو اس کے جواب میں صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ 10 سال کی عمر میں منگل کے دن لنچ کا ذائقہ کیسا محسوس ہوتا تھا اور آج کیسا ہوتا ہے تو اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا۔‘
برڈک کا کہنا ہے کہ کوئی اگر کہے کہ اسے مصروفیت کے بجائے اب بوریت کا احساس زیادہ ہوتا ہے تو اسے وقت سست روی سے گزرتا محسوس ہوگا۔ اس میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بڑھاپے میں زیادہ تر افراد بوریت یا اکتاہٹ کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے برڈک نے حال ہی میں ایک اولڈ ہاؤس میں ہونے والی تحقیق کا حوالہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اولڈ ہاؤس کے مکینوں میں سے جن شرکا کا جواب تھا کہ وقت بہت سست روی سے گزر رہا ہے، ان میں سے اکثر ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ جب کہ جن لوگوں کا جواب تھا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے وہ نسبتاً مصروف اور خوش تھے‘۔
مزید پڑھیے: زندگی لازوال نہیں مگر خوبصورت تو بنائی جاسکتی ہے
اس کے بعد برڈک ایک انتہائی دلچسپ بات کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی لمبی زندگی کی خواہش کرتا ہے، لیکن اگر کوئی فرد اپنی زندگی میں بے کاری اور اکتاہٹ کے شب و روز گزارنے کا معمول بنا لے تو اسے وقت بہت سستی سے گزرتا محسوس ہوگا‘۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’آپ کو اس حوالے سے مختصر محسوس ہونے والی لیکن کارآمد زندگی کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘
لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی کے اگلے برس بھی اسی طرح پَر لگا کر اُڑ جائیں تو اہداف کا تعین کریں، اپنی شخصیت کی تعمیر میں مصروف ہوجائیں، وقت گزر جائے گا مگر آپ کو احساس تک نہیں ہوگا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مت دیکھو تمہاری زندگی میں دن کتنے گزرے، غور اس بات پر کرو کے ان گزرے دنوں میں زندگی کتنی تھی؟