مشرق وسطیٰ میں جنگوں کا خاتمہ قریب لیکن کشیدگی میں کمی مشکل کیوں؟
نئے سال کی طرف بڑھتا مشرقِ وسطیٰ بظاہر جنگوں سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ شام سے امریکا نکل رہا ہے اور شام کے نئے آئین کی تیاری اور سیاسی حل پر کام شروع ہو رہا ہے۔ یمن جنگ پر ثالثی ہو رہی ہے اور جنگ بندی کے معاہدے طے پا رہے ہیں۔ لیبیا اور عراق میں بھی جنگ ختم ہوتی نظر آتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود خطے میں امن کو لاحق خطرات ختم نہیں ہوئے۔
مشرق وسطی میں کن کن ممالک کے آپس میں کیا مسائل جاری ہیں آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
جمال خاشقجی کا قتل اور سعودی مشکلات
سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل 2018ء کا سب سے بڑا اور ہنگامہ خیز واقعہ بنا، جس نے محمد بن سلمان کی قیادت پر سوال اٹھائے اور امریکا کو یمن جنگ میں سعودی حمایت سے دستبردار ہونا پڑا۔ 2019ء میں بھی سعودی عرب عالمی منظرنامے پر تنہائی دُور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے گا۔ ایران اگلے سال بھی سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج بنا رہے گا۔ سعودی عرب تہران کی مخالفت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا اور اس کی خاطر اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور تعاون کو بھی اپنے لیے حلال تصور کرے گا۔
محمد بن سلمان کی رہنمائی میں سعودی عرب خود کو خطے کی سب سے بڑی اسٹرٹیجک طاقت بنانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔ خطے میں سعودی عرب کے لیے 2 بڑے حریف ہیں، ایک ترکی اور دوسرا ایران۔ ماضی میں تو ضرورت پڑنے پر سعودی عرب ترکی کے ساتھ مل کر بھی کام کرتا رہا ہے لیکن قطر معاملے اور خاشقجی کے قتل کے بعد سے ترکی اور سعودی عرب اب باضابطہ حریف بن کر آمنے سامنے ہیں۔ سعودی عرب امریکی چھتری تلے رہ کر دونوں حریفوں کا مقابلہ کر رہا ہے لیکن وہ اپنے نئے معاشی اور سیکیورٹی شراکت دار بھی تلاش کر رہا ہے تاکہ واشنگٹن پر انحصار بتدریج ختم کیا جاسکے۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور دباؤ نے سعودی عرب کو نئے شراکت داروں کی تلاش پر سنجیدگی سے مجبور کردیا ہے۔
محمد بن سلمان سعودی عرب کا چہرہ ہیں لیکن 2 سال سے محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی وجہ سے سعودی عرب مسلسل دباؤ کا شکار رہا ہے۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے قطر کا مقاطعہ کیا، لبنان کے وزیرِاعظم کو ریاض میں یرغمال بنا کر استعفیٰ لیا گیا اور جرمنی کے ساتھ سعودی عرب کی شراکت داری کو دھچکا لگا۔ سعودی عرب کے اندر انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں کو مملکت کا اندرونی معاملہ سمجھا گیا لیکن اس نے بھی مملکت پر دباؤ میں اضافہ کیا۔ 2018ء میں سعودی عرب کا کینیڈا سے اسی معاملے پر تنازع ہوا اور سفارتی کشیدگی بڑھی۔ جمال خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو متاثر کیا اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا۔
سعودی عرب اب بھی قطر پر کنٹرول کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن بظاہر تعلقات معمول پر لانے کا دکھاوا بھی جاری ہے جس کی مثال اس سال کی خلیج تعاون کونسل کی سربراہ کانفرنس ہے جس میں قطر کو دعوت دی گئی تھی۔ قطر نے سربراہ کانفرنس میں درمیانے درجے کا عہدیدار بھجوا کر ریاض کو صاف اور واضح پیغام دے دیا کہ وہ اس جھانسے میں نہیں آنے گا۔ یمن جنگ پر بھی ریاض کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دباؤ کے نتیجے میں ریاض امن مذاکرات پر مجبور ہوا۔
سعودی عرب-ایران جھگڑا اور اسرائیلی کردار
2019ء میں بھی ریاض تہران کو تنہا کرنے اور دباؤ میں لانے کے لیے عرب اتحادیوں کو خوش رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے اور غیر روایتی اتحادیوں کی تلاش جاری رکھے گا اور اس کی ایک مثال اسرائیل کے ساتھ سعودی قربتیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ایران کو جھکانے کے لیے اپنے اپنے مفادات کی خاطر قریب آ رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل زیادہ کوشش کر رہا ہے اور وہ سعودی عرب کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کر رہا ہے۔ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ قربت کا اعتراف نہیں کر رہا تاہم اسرائیلی حکام اور نجی شعبہ اس معاملے میں رازداری کے قائل نہیں رہے۔
ایران سعودی عرب یا ایران اسرائیل تنازع کی صورت میں ریاض اور تل ابیب تعاون بڑھائیں گے اور سال 2019ء سعودی اسرائیل تعلقات کے حوالے سے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب میں اسی ماہ تشکیل پانے والا بحیرہ احمر اتحاد بھی نئے جیوپولیٹیکل منظرنامے میں سعودی خواہشات کا مظہر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ریاض اور ماسکو کو مزید قریب لائے گی خصوصاً قطر میں امریکی ایئربیس کی توسیع نے ریاض میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
سعودی عرب تیل کی دولت کو سیاسی اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور 2019ء میں بھی یہ پالیسی جاری رہے گی۔ پاکستان کو ایک ارب ڈالر نقد اور 3 ارب ڈالر کا ادھار تیل اس کی مثال ہے۔ اگرچہ پاکستان نے سعودی عرب کو بدلے میں کچھ نہیں دیا لیکن خاشقجی قتل کے بعد ریاض کی سیاسی تنہائی میں وزیرِاعظم عمران خان کا سرمایہ کاری کانفرنس میں جانا اور سعودی عرب کے دفاع کے عزم کو دہرانا بھی ریاض کے لیے کافی ثابت ہوا۔
سعودی عرب اپنے معاشی استحکام کے لیے نئے منصوبوں کی تلاش میں ہے۔ سعودی آرامکو اور امارات کی نیشنل آئل کمپنی بھارت میں ریفائنری لگا رہی ہیں جبکہ پاکستان میں بھی ریفائنری کا منصوبہ ہے تاکہ ایشیائی خریداروں کو تیل کی سپلائی یقینی بنائی جاسکے۔ 2019ء میں بھی سعودی عرب جنوبی ایشیا کے علاوہ چین، روس اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے گا تاکہ اس کی اپنی معاشی اصلاحات کے لیے سرمایہ یقینی بنایا جاسکے۔ 2 سال کی افراتفری اور دباؤ کے بعد ریاض 2019ء کو اپنے لیے پُرسکون بنانے کی بھی کوشش کرے گا۔
شام کی صورتحال
شام کی صورت حال 2018ء میں بے چینی کا باعث بنی رہی۔ امریکی صدر کی طرف سے فوجی انخلا کے اعلان نے شام میں حالات تبدیل کئے ہیں لیکن مکمل سکون کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ امریکی فوجی انخلا سے واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات بھی بہتر ہونے کی توقع ہے جو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔ تاہم امریکی فوجی انخلا سے شام میں کرد ملیشیا کے خلاف ترکی کی کارروائیوں کے امکانات بڑھے ہیں اور امریکا کی طرف سے کردوں کے ساتھ بے وفائی نے واشنگٹن پر اعتماد کرنے والوں کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
امریکا کا داعش کو شکست دینے کا دعویٰ بھی درست نہیں۔ شام میں اب بھی 15 ہزار داعش جنگجو موجود ہیں اور کرد ملیشیا نے امریکا کی بے وفائی پر اپنی قید میں موجود داعش جنگجوؤں کی رہائی کی دھمکی دی ہے۔ ان حالات میں شام میں مکمل بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ ترکی اور کرد ملیشیا وائی پی جی (Kurdish YPG) کے درمیان لڑائی داعش کے خلاف جنگ کو بھی متاثر کرے گی۔
اسرائیل کو امریکی تحفہ
اسرائیل کو 2018ء میں امریکی صدر نے بہت بڑا تحفہ امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی صورت میں دے دیا ہے۔ جس کے بعد فلسطین اور امریکا کے تعلقات شدید کشیدہ ہوئے۔ ایک طرف اسرائیل مغربی کنارے کے علاقے میں یہودی بستیاں بسانے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف غزہ بارڈر سارا سال احتجاج کا مرکز رہا اور درجنوں فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔ امریکا کا امن منصوبہ اس سال کے اختتام پر سامنے لانے کے اعلانات ہوئے لیکن اب تک سامنے نہیں آسکا۔ اگر ٹرمپ کا منصوبہ اصل خد و خال کے ساتھ سامنے آگیا تو خدشہ ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع مزید زور پکڑ جائے گا۔
امریکا-ایران جھگڑا
امریکا اور ایران کا جھگڑا بدستور موجود ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ امریکا ایران کو تنہا کرنے کے مزید اقدامات کرے گا۔ ایران کو اندر سے کمزور کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ ان کوششوں سے واشنگٹن تہران کشیدگی بڑھے گی اور کسی بھی طرح کے تعمیری مذاکرات کی امیدیں دم توڑ سکتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی مسائل میں گھرا سعودی عرب ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششوں کا بھرپور ساتھ دے کر اپنی عالمی تنہائی دُور کرنے کی کوشش کرے گا۔
اردن، لبنان اور مصر خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار
2011ء کی عرب بہار سے بچ جانے والے ممالک اردن، لبنان اور مصر ایک بار پھر خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ فرانس کے پیلی جیکٹ مظاہرے مصر اور دیگر ملکوں تک پہنچنے کے امکانات موجود ہیں اور ان مظاہروں کو پیلی جیکٹ کی فروخت پر پابندی لگانے جیسے بھونڈے اقدامات سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان ممالک میں جہاں نوجوان نسل بیروزگاری اور معاشی مسائل کا شکار ہے، وہیں عرب ملکوں میں آمریتوں نے نوجوانوں کو سیاسی امور سے بھی الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ یہ وہ سارے عوامل ہیں جنہوں نے مل کر بے چینی میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ اردن میں ایک وزیرِاعظم اس سال مظاہروں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے جبکہ نئے وزیرِاعظم کو بھی انہی مظاہروں اور مسائل کا سامنا ہے۔
مشرق وسطیٰ کا معاشی مسئلہ
معاشی حوالے سے بھی مشرق وسطیٰ اہمیت کا حامل رہے گا۔ روس اور سعودی عرب مل کر تیل کی قیمتوں کو مزید گرنے سے بچانے کے لیے پیداوار کو خاص سطح تک رکھنے کی کوشش کریں گے، جبکہ امریکا تیل کی قیمتوں کو اپنی معیشت پر اثرانداز ہونے سے بچانے کے لیے عراق اور لیبیا کے تیل کو استعمال کرنے کے حربے اپنائے گا۔
سعودی عرب اور حوثی باغیوں کے مابین مذاکرات کی پیشرفت
یمن میں سعودی اتحاد اور ایران کے زیرِ اثر حوثی باغیوں کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں امن مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ نئے سال کے آغاز پر مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ عالمی دباؤ کے پیش نظر اس دور میں مزید پیشرفت کی توقع ہے۔ یمن کا محاذ مکمل پُرسکون ہونے کی توقعات کم ہیں کیونکہ یمن واحد علاقہ ہے جہاں سے ایران نہ صرف سعودی عرب کا ہمسایہ نہ ہونے کے باوجود اس کا گھیراو کرسکتا ہے بلکہ مصر، اردن اور اسرائیل کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ صومالیہ، اریٹیریا اور سوڈان کے زمینی راستوں پر بھی ایران کنٹرول کرسکتا ہے اور ان علاقوں میں باغیوں کو اسلحہ اور کمک پہنچا سکتا ہے۔ یمن اسرائیل کی بحیرہ احمر کے راستے بھارت اور چین کے ساتھ تجارت کا اہم روٹ ہے۔ لہٰذا خیال یہی ہے کہ ایران جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی غرض سے یمنی باغیوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
ان تمام حالات میں 2019ء میں بھی ایران تنازع کی وجہ سے سعودی عرب کو صدر ٹرمپ کی حمایت برقرار رہے گی۔ شام سے فوجی انخلا کے بعد کوئی واضح امریکی پالیسی موجود نہیں جبکہ افغانستان سے بھی نصف فوجی واپس بلانے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ سابق امریکی صدور بھی افغانستان کی جنگ سے نکلنے کی ناکام کوششیں کرچکے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد اس کوشش میں کامیابی حاصل کر پائیں گے یا نہیں؟ بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ امریکا اگر افغانستان سے بھی اچانک چلا گیا تو خطے کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوگا اور اس خانہ جنگی سے بھارت اور ایران سمیت خطے کی کئی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی کوششیں کریں گی اور پاکستان کے لیے بھی حالات اچھے نہیں رہیں گے۔