فیس بک میں آپ کے پرائیویٹ پیغامات بھی محفوظ نہیں، رپورٹ
فیس بک کے لیے 2018 اس کمپنی کے قیام کے بعد سے اب تک کا سب سے بھیانک خواب ثابت ہوا ہے اور اس کا اختتام بھی ایک اور نئے اسکینڈل کے انکشاف کے ساتھ ہورہا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے گزشتہ روز ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ فیس بک کی جانب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو صارفین کے ذاتی ڈیٹا تک بہت زیادہ رسائی دی جاتی ہے، جس کے بارے میں لوگوں کو علم ہی نہیں اور فیس بک نے بھی خود اس بات کو اب تسلیم کرلیا ہے۔
جی ہاں 2 ارب 20 کروڑ فیس بک صارفین کے ذاتی پیغامات بھی تھرڈ پارٹی ایپس کی رسائی سے محفوظ نہیں۔
مزید پڑھیں : فیس بک پر سنگین الزامات : نیویارک ٹائمز کی چشم کشا رپورٹ
رپورٹ میں یہ انکشاف امریکی روزنامے نے فیس بک کی شراکت دار مختلف کمپنیوں کے ساتھ اس کمپنی کے سابق ملازمین سے انٹرویوز اور دستاویزات کی بنیاد پر کیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ مائیکروسافٹ کے بنگ سرچ انجن کو فیس بک صارفین کے دوستوں کے ناموں کو دیکھنے کی اجازت ان کی مرضی کے بغیر دی گئی جبکہ مائیکروسافٹ سرورز پر فیس بک صارفین کی پروفائلز بلٹ کی گئیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسپاٹیفائی، نیٹ فلیکس اور رائل بینک آف کینیڈا صارفین کے ذاتی پیغامات کو پڑھنے، لکھنے اور ڈیلیٹ کرسکتے ہیں جبکہ کسی تھریڈ میں تمام صارفین کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔
یہ بھی دیکھیں : فیس بک پر صارفین کی معلومات موبائل کمپنیوں کو دینے کا الزام
ایمازون کو صارفین کے ناموں اور کانٹیکٹ انفارمیشن کے حصول کی اجازت دی گئی، ایپل کو کانٹیکٹ نمبروں اور کیلنڈر ایونٹس تک رسائی دی گئی جبکہ صارفین کی ڈیوائسز سے مطلوبہ ڈیٹا چھپانے کی صلاحیت بھی دی گئی۔
اس بارے میں ایپل نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ یہ ڈیٹا ڈیوائسز میں باقی رہتا ہے اور کسی اور کے لیے دستیاب نہیں ہوتا، جبکہ نیٹ فلیکس نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا 'نیٹ فلیکس نے کبھی کسی کے ذاتی پیغامات تک رسائی کا نہیں، ہم آپ کے ذاتی پیغامات میں نہیں جاتے'۔
فیس بک نے ڈیڑھ سو سے زائد کمپنیوں سے اس طرح کی شراکت داری 2010 میں کی تھی جن میں سے کچھ اب بھی موثر ہیں۔
ان معاہدوں کے ذریعے فیس بک کو مزید صارفین کے حصول میں مدد ملی جبکہ تھرڈ پارٹیز کو اپنی مصنوعات کو بہتر فیچرز سے لیس کرنے کا موقع دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: صارفین کا ڈیٹا غلط استعمال ہونے پر فیس بک کے خلاف تحقیقات
ان معاہدوں کے ذریعے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے ایسی خصوصی رسائی دی گئی جو کہ رواں سال مارچ میں سامنے آنے والے کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل سے کہیں زیادہ ہے۔
نیویارک ٹائمز نے فیس بک کے ایک فیچر پیپل یو مے نو کے بارے میں بھی انکشاف کیا کہ اس میں جن افراد کو ممکنہ دوست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں معلومات یہ کمپنی اپنے شراکت داروں کی کانٹیکٹ لسٹوں سے حاصل کرتی ہے، تاکہ کسی فرد کے رشتوں کا اندازہ لگا کر اس کے لیے دوستوں کا مشورہ دیا جاسکے۔
دوسری جانب ایک بلاگ پوسٹ میں فیس بک نے کہا کہ شراکت دار کمپنیوں جیسے اسپاٹیفائی کو صارفین کے ذاتی پیغامات تک رسائی اس وقت دی جاتی ہے جب وہ پارٹنر کمپنی کی ایپ سے فیس بک پر سائن ان ہوتے ہیں۔
یعنی لوگوں سے اجازت سے یہ کام کیا جاتا ہے مگر صارفین کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس بات کی اجازت دے رہے ہیں۔
نیٹ فلیکس اور اسپاٹیفائی کے مطابق وہ اس سے آگاہ ہی نہیں تھے کہ فیس بک نے انہیں کتنا زیادہ اختیار دے رکھا ہے جبکہ رائل بینک آف کینیڈا نے اس طرح کی رسائی کی تردید کی ہے۔
فیس بک نے اپنی بلاگ پوسٹ میں مزید بتایا 'واضح رہے کہ اس طرح کی شراکت داری یا فیچر جن تک کمپنیوں کو رسائی ہوتی ہے، لوگوں کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتی، نہ ہی اس میں فیڈرل ٹریڈ کمیشن سے 2012 میں کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی'۔
فیس بک نے بتایا کہ اس نے انسٹنٹ پرسنلائزیشن پراسیس کو 2014 میں شٹ ڈاﺅن کردیا تھا جس کے ذریعے صارفین کو اپنے فیس بک اکاﺅنٹس دیگر سروسز سے لنک کرنے کا موقع ملتا تھا تاکہ وہ اپنے دوستوں کی شیئر کردہ پبلک انفارمیشن دیکھ سکیں، مگر یہ بھی تسلیم کیا کہ اس سروس کے لیے جس سافٹ وئیر کی مدد لی گئی، اس کا استعمال ترک کردیا گیا، جس سے ممکنہ طور پر ڈویلپرز کے پاس صارفین کی ذاتی معلومات تک رسائی دستیاب رہی۔
تاہم فیس بک کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ شٹ ڈاﺅن پروگرام کو استعمال یا غلط استعمال کیا گیا۔
فیس بک کے لیے رواں سال اسکینڈل سے بھرپور ثابت ہوا ہے اور صارفین کو اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح ان کے ذاتی ڈیٹا کا استعمال کرتی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں برطانوی پارلیمانی کمپنی کی جانب سے جاری دستاویزات میں انکشاف ہوا تھا کہ فیس بک کی جانب سے دیگر کمپنیوں کو ذاتی ڈیٹا تک خصوصی رسائی دینے پر غور کیا جارہا ہے۔