2018ء میں پانی کے شعبے میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا؟
2018ء کا سال اپنی اچھی بُری یادیں چھوڑ کر بالآخر رخصت ہوا چاہتا ہے۔ کس نے کیا کھویا، کیا پایا، آگے بڑھنے کے لیے حساب ضروری ہے۔ کل سے سیکھیں گے تو آج کو بہتر بنا پائیں گے۔
ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ یقیناً سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے عہدِ زریں کہلا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نام نہاد ترقی نے اخلاقیات، اقدار اور سماجی بندھن کمزور کردیے ہیں۔ ترقی یافتہ صنعتوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں نے فطرت کی متوازن خوبصورتی میں بدنما دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کا اژدہا اب کرہءِ ارض پر زندگی کو نگلنے کو بے تاب کھڑا ہے۔
ہزاروں سال کی پروان چڑھتی تہذیب و ثقافت اور زمین پر بسنے والے تمام جاندار اب بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔ کرہءِ ارض کے باسی ہونے کے ناطے ہم کسی بھی عالمی خطرے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، چاہے عالمی سطح پر ماحول کو تباہ کرنے میں ہمارا ہاتھ ہو یا نہ ہو۔
عالمی تحقیقاتی ادارے جرمن واچ انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں 7ویں نمبر پر آتا ہے، اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ہم ’ٹاپ ٹین‘ میں شامل ہیں بلکہ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے ہم اس حوالے سے اولین نمبروں پر ہی موجود رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ سب سے زیادہ آبی وسائل کو ہی ہے اور اسی لیے خدشہ ہے کہ اگلی اور شاید آخری عالمی جنگ پانی پر ہی ہوگی۔
پاکستان اپنے آبی وسائل کے حوالے سے بہت زیادہ افراتفری کا شکار ہے۔ قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشئرز اور 100 سے زیادہ چھوٹے بڑے دریا رکھنے کے باوجود بدانتظامی اور نااہلی کا عالم یہ ہے کہ سال کے 8 مہینے خشک سالی میں گزرتے ہیں۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود کاشت کے لیے کسانوں کو پانی میسر نہیں ہوتا۔ پینے کے پانی کے لیے شہروں اور قصبوں میں لوگ طویل قطاریں لگائے نظر آتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں پانی کے 2 مٹکوں کے حصول کے لیے خواتین کو کئی گھنٹے چلنا پڑتا ہے۔ اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے آگے بھی کچھ اچھی امید نظر نہیں آتی لیکن اس سال کچھ ایسے فیصلے یا اقدامات ہوئے ہیں کہ اگر ان پر عمل درآمد ہوجائے تو آگے چل کر بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ آئیے اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ آبیات کے شعبے میں سال 2018ء میں کیا کچھ ہوا ہے۔
قومی آبی پالیسی
آبی شعبے میں بدانتظامی اور نااہلی کے اعلیٰ درجات پر فائز ہونے کے باوجود اگر ہم نے قومی آبی پالیسی تیار کرلی ہے تو یقیناً یہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ 70 سالوں کی تاخیر سے سہی لیکن کہا جاسکتا ہے کہ ہماری گاڑی پٹری پر آ گئی۔
چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے تشکیل پانے والی یہ پالیسی اپریل کے مہینے میں مشترکہ مفادات کی کونسل میں منظور کی گئی۔ اس میں صوبائی سطح پر تنازعات ختم کرنے کی غرض سے پانی کی تقسیم کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نئے آبی ذخائر مثلاً ڈیموں کی تعمیر اور بیراجوں کی گنجائش بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ کم از کم 10 ملین ایکڑ فٹ کی گنجائش کے 2 نئے ڈیم جنگی بنیادوں پر تعمیر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پالیسی کی ابتدا میں اس حقیقت کا ادراک کیا گیا ہے کہ ملک میں 2025ء تک دستیاب پانی کی فی کس مقدار 860 مکعب میٹر تک کم ہوجائے گی جس کے بعد پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
قومی آبی پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے یہ بھی طے کیا گیا کہ ایک نیا ادارہ ’قومی واٹر کونسل‘ کے نام سے قائم کیا جائے گا۔ اس کے سربراہ وزیرِاعظم ہوں گے اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اس میں شامل ہوں گے بشمول وفاقی وزرا برائے آب، توانائی اور منصوبہ بندی و ترقی۔ اگرچہ اس ضمن میں اب تک کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد ہوسکے گا۔
ڈیموں کی تعمیر
جولائی میں ایک اور اچھی خبر اس وقت سامنے آئی جب حکومت نے آبی مسائل کے حل کے لیے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا اعلان کردیا۔ کالا باغ ڈیم کے برعکس ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے صوبوں کے مابین کوئی بڑا تنازع نہیں ہے۔ اگرچہ ان منصوبوں پر کام پچھلی حکومتوں کے دور میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن کوئی قابلِ قدر پیش رفت دیکھنے میں نہیں آسکی۔
دیا میر بھاشا ڈیم
دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے چلاس سے کوئی 40 کلو میٹر دُور ایک گاؤں ’تھور‘ کا انتخاب کیا گیا۔ دریائے سندھ پر تعمیر کردہ یہ ڈیم خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر تعمیر کیا جائے گا۔ نقشے کے مطابق اس ڈیم کی ذخیرہ گاہ کا 98 فیصد گلگت بلتستان میں جبکہ اس کے پاور ہاؤس کے پی کے میں تعمیر کیے جائیں گے۔
12 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ منصوبہ 4 ہزار 500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں 6.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا جو دریائے سندھ کے پانی کے سالانہ بہاؤ کا صرف 15 فیصد ہوگا۔ اس ڈیم کی عمر 100 سال ہوگی۔ کہا تو یہ جارہا ہے کہ ڈیم 7 سالوں میں تعمیر کرلیا جائے گا، مگر خوف یوں ہے کہ ہمارے ملک میں کیے جانے والے کاموں کی روایت اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ کرتے چلیں جو بہت ہی کم زیرِ بحث آتی ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے گلگت بلتستان کے ثقافتی ورثے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس علاقے میں ہزاروں سالہ قدیم چٹانوں پر گوتم بدھ کی تصاویر کندہ ہیں۔مؤرخین کا کہنا ہے کہ چٹانوں پر کندہ یہ تصاویر وسطی اور جنوبی ایشیا کی ثقافتی تاریخ کے مطالعے کے لیے ایک نایاب ذریعے کی حیثیت رکھتی ہیں جسے محفوظ کیا جانا ضروری ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان چٹانوں کے کندہ شدہ حصوں کو کسی میوزیم وغیرہ میں محفوظ کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ قدیم تاریخ اس طرح ضائع نہ ہو۔ اس حوالے سے کوئی خاص منصوبہ ابھی تک سامنے نہیں نہیں آیا۔
مہمند ڈیم
مہمند ڈیم کو منڈا ڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈیم مہمند ضلع میں دریائے سوات پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ واپڈا کی رپورٹ کے مطابق اس ڈیم میں 1.2 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔
واپڈا ہی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مہمند ڈیم 6 سال میں مکمل ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے سے پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کو تباہ کن سیلاب سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اس ڈیم کا بنیادی مقصد سیلاب سے بچاؤ اور بجلی و پانی کا حصول ہے۔ اس ڈیم سے 800 میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ جنوری سے اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوجائے گا۔
ڈیم فنڈ
ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے اس سال کی ایک متاثر کن پیش رفت یہ رہی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے آبی ذخائر کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کردیا اور اس کی ابتدا کرتے ہوئے اپنی جانب سے 2 لاکھ روپے اس فنڈ میں جمع کروادیے۔ انہوں نے اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اس حوالے سے دل کھول کر عطیات دیں اور پاکستان کو آبی اعتبار سے مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
چیف جسٹس کے اس حکم نامے کی روشنی میں اسٹیٹ بینک نے ملک بھر میں 16 ہزار برانچوں میں ڈیم فنڈ اکاؤنٹس کھول دیے تاکہ عوام ڈیمز کے لیے اپنے عطیات جمع کراسکیں۔ بینک ملازمین، پاک فوج سمیت بہت سے اداروں اور افراد نے اس میں رقوم جمع کروائیں۔ اس حوالے سے ملکی میڈیا میں دلچسپ بحث کا بھی آغاز ہوا۔ لوگوں نے اعتراضات کیے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی ڈیم چندوں سے نہیں تعمیر کیے جاتے۔ لوگوں نے اپنے تجزیوں میں بہت سے دلچسپ اعداد و شمار بھی پیش کیے کہ کتنے لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر کتنا چندہ دینا ہوگا تب کہیں جاکر ڈیم کی تعمیر کے لیے مطلوبہ رقم جمع ہوسکے گی۔
ان تمام اعتراضات کے باوجود ڈیم فنڈ میں رقوم کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ چیف جسٹس کے حالیہ دورہ برطانیہ میں بھی فنڈ جمع کرنے کی غرض سے بہت سے پروگرام منعقد کیے گئے۔ کچھ ٹیلی ویژن چینلوں نے ٹیلی تھون کا بھی انعقاد کیا۔
آبی کانفرنس
رواں سال کا ایک اور اہم واقعہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کی ہدایت پر پاکستان لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیرِ اہتمام اپنی نوعیت کی پہلی آبی کانفرنس ’پانی کے حوالے سے محفوظ پاکستان‘ کا انعقاد تھا۔ اس کانفرنس میں غیر ملکی آبی ماہرین بھی شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا مقصد ملک میں پانی کے مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور نئے ذخائر کی تعمیر کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔
کانفرنس کا افتتاح صدرِ مملکت نے کیا جبکہ سربراہی چیف جسٹس کر رہے تھے۔ کانفرنس کے اعلامیے کے مطابق پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنا مقدمہ بین الاقوامی فورم پر پیش کرے اور اپنے حصے کے پانی کے حصول کے لیے اقدامات کرے۔
اس کے علاوہ نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت داری سے چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے کیا گیا۔ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو پانی کے استعمال کے لیے مناسب نرخ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تاکہ لوگ اس قیمتی وسیلے کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوسکیں۔
ری چارج پاکستان
وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے زیرِ زمین پانی کی سطح کی بحالی اور دوبارہ استعمال اور سیلابی پانی کے بہتر انتظام اور استعمال کے لیے ’ری چارج پاکستان‘ کے نام سے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے وزیرِاعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے مطابق پاکستان میں پانی کی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے بنیادی ڈھانچے کی کمی اور بدانتظامی کی وجہ سے ہم ہر سال بڑی مقدار میں پانی ضائع کردیتے ہیں۔
اس حوالے سے اسلام آباد میں پانی کے ذخیرے کا ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا جارہا ہے تاکہ وفاقی دارالحکومت میں پانی کی کمی پر قابو پایا جاسکے اور یہ ’ری چارج پاکستان‘ پروگرام کے زیرِ اہتمام پہلا منصوبہ ہوگا۔ پاکستان جھیلوں اور آب گاہوں کی نعمت سے مالامال ہے۔ قدرت کے ان تحفوں (جھیلوں اور آب گاہوں) کی بطور ذخیرہ گاہ گنجائش بڑھائی جائے گی تاکہ ان میں زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ان دنوں اگرچہ اپنے 100 دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے زیرِ ہدف ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ان کی ترجیحات میں پانی اور دیگر ماحولیاتی مسائل کا حل سرِفہرست نظر آتا ہے۔ البتہ عملی طور پر ابھی کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آسکی ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ جب ہم سال 2019ء میں داخل ہورہے ہیں تو ہماری حکومت کے دامن میں چند اچھے منصوبے ضرور ہیں جن پر عمل درآمد کے لیے پوری قوم دعاگو ہے۔