مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے حکومت کے ‘مختصر ترین‘ ٹی او آرز
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے عام انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی کے جائزے کے لیے ذیلی کمیٹی کے سامنے مختصر ترین ٹی او آر پیش کردیے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے 8 نکات پر مشتمل مسودہ جمع کرا دیا گیا۔
انتخابی جائزہ کمیٹی کی جانب سے بنائی گئی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر شفقت محمود کی زیرصدارت ہوا جہاں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی نوید قمر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما راناثنا اللہ اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر بیرسٹر سیف شریک ہوئے۔
اجلاس میں حکومت نے انتخابی دھاندلی سے متعلق اپنے ٹی او آرز حزب اختلاف کےحوالے کر دیے اور اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کے جواب کے لیے 13 دسمبر تک کا وقت مانگ لیا۔
حکومت کی جانب سے 33 الفاظ پر مبنی مختصر ترین ٹی او آرز تجویز کیے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی اس بات کے تعین کے لیے انکوائری کرے گی کہ آیا الیکشن کمیشن نے 2018 کے عام انتخابات ایمانداری، واضح، شفاف اور قانون کے مطابق کروائے اور بدعنوان عوامل کے سدباب کے لیے انتظامات کیے۔
یہ بھی پڑھیں:انتخابات میں 'دھاندلی': ضابطہ کار طے کرنے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ عام انتخابات شفاف، قانون اور آئین کے تقاضوں کے مطابق تھے جس کے متعلق فافن اور یورپی یونین کی رپورٹ بھی آ گئی ہے لیکن اپوزیشن کا مقصد انتخابات کو متنازع اور سیاسی بنانا ہے۔
شفقت محمود نے کہا کہ حکومت نے آئین کی شق 218 کے مطابق بہترین ٹی او آرز تجویز کیے جو حزب اختلاف کے مطالبات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں اور بہترین تحقیقات آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہی کی جائے گی۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کی قانونی حیثیت کے حوالے سے ریفرنس چیئرمین کمیٹی پرویز خٹک کو بجھوا دیا گیا ہے جو اس وقت اسپیکر کے پاس ہے۔
پی پی پی رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے حکومت کا طریقہ کار واضح ہے کہ وہ پیش رفت نہیں کرنا چاہتی ہے کیونکہ ٹی او آر سادہ سا معاملہ تھا لیکن حکومت نے آئینی ذمہ داری کو ہی اپنے ٹی او آرز بنا لیے۔
مزید پڑھیں:انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات: پرویز خٹک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مقرر
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی تجاویز میں ٹی او آرز کو بہت مختصر کر دیا ہے، حکومت بہر صورت راہ فرار چاہتی ہے لیکن اپوزیشن حکومت کو ایسا کرنے نہیں دے گی اور اس صورت حال پر اپوزیشن کی تمام جماعتیں مشاورت کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے اور تمام جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم نہیں کیے گئے اس لیے ہماری تجویز تھی کہ پارلیمنٹ کا بئیکاٹ کیا جائے تاہم پی پی پی نے اتفاق نہیں کیا اور پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات کا راستہ چنا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کمیٹی بن گئی ہے مگر حکومت کسی نہ کسی بہانے سے راہ فرار چاہتی ہے لیکن حکومت کو باور کرانا چایتے ہیں کہ اگر پارلیمانی کمیٹی کا راستہ روکا گیا تو دوسرا راستہ احتجاج کا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ٹی او آرز مرکزی کمیٹی کو بھجوادیے جائیں گے اور مرکزی کمیٹی حتمی ٹی او آرز کا فیصلہ کرے گی۔
ڈان نیوز کو موصول ہونے والے اپوزیشن کے 8 نکات میں سوال کیا گیا کہ کیا عام انتخابات میں، انتخابی بل 2017 اور متعلقہ قواعد پر حقیقی روح کے مطابق عمل کیا گیا، کیا دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق آزادانہ کام کرنے دیا گیا۔
اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کہا گیا ہے کہ کیا عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور کارکنان کو یکساں مواقع ملے اور عام انتخابات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
یہ بھی پڑھیں:انتخابات میں 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم
ٹی او آرز میں مزید سوالات کیے گئے ہیں جس کے مطابق عام انتخابات کے کتنے نتائج کا اعلان آدھی رات کے بعد کیا گیا اور اس کی وجوہات کیا تھیں، سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو تحریری نتائج کیوں نہیں دیے گئے، آر ٹی ایس سسٹم اور آر ایم ایس سسٹم کیوں ناکام ہوا، اس سسٹم کا پہلے تجربہ کیوں نہ کیا گیا۔
حزب اختلاف نے ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا ہے کہ کمیٹی میں انتخابات کی شفافیت اور آزادانہ انعقاد کے حوالے کوئی بھی پہلو زیر غور لایا جاسکتا ہے۔
آٹھواں اور آخری نکتہ یہ ہے کہ انتخابی کمیٹی، الیکشن کمیشن، نادرا کے انتخابی عملے ،امیدواروں اور انتخابی عمل کے دوران ذمہ داری ادا کرنے والے تمام اداروں کے حکام کو بلانے کی مجاز ہوگی۔
یاد رہے کہ انتخابات میں میبنہ دھاندلی کے حوالے تحقیقات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی جائزہ کمیٹی نے ٹی او آرز کی تشکیل کے لیے 10 نومبر کو ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی اور شفقت محمود کو اس کا کنوینر مقرر کردیا گیا تھا جبکہ حکومت اور اپوزیشن سے مجموعی طور پر 8 راکین کو اس کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا۔
ذیلی کمیٹی کو دو ہفتوں میں اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی میں جمع کرنے کا وقت دیا گیا تھا۔