• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کا بیان مکمل، فریقین سے دلائل طلب

شائع November 22, 2018
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بیان مکمل ہوگیا، جس کے بعد عدالت نے فریقین سے حتمی دلائل طلب کرلیے۔

ساتھ ہی عدالت نے نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی متفرق درخواستوں کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جج ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کی۔

دوران سماعت نواز شریف کی جانب سے عدالت کو اپنے دفاع میں کسی گواہ کو پیش نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ظاہر ہو کہ میں نے العزیزیہ یا ہل میٹل قائم کی ہو، اس کے علاوہ نیب یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ حسن نواز اور حسین نواز میرے زیرِ کفالت تھے۔

مزید پڑھیں: ’مارشل لا کے بعد ایجنسیوں نے تمام ریکارڈ غیرقانونی تحویل میں لے لیا تھا‘

نواز شریف کی جانب سے کہا گیا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ میرا العزیزیہ یا ہل میٹل کے انتظامی معاملات میں کردار رہا اور ساتھ ساتھ میرے خلاف فردِ جرم ثاب کرنے میں بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

سابق وزیراعظم نے عدالت میں بتایا کہ یہ کیس میرے مخالفین کی طرف سے لگائے گئے الزامات اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی یکطرفہ رپورٹ کی بنیاد پر بنائے گئے۔

نواز شریف نے بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں غلط طریقے سے مجھے العزیزیہ اور ہل میٹل کا مالک ظاہر کیا گیا جبکہ واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کے علاوہ کسی گواہ نے میرے خلاف بیان نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا معزز بینچ بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مکمل مطمئن نہیں تھا اور عدالت عظمیٰ نے معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھجوایا گیا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے۔

عدالت میں انہوں نے بتایا کہ واجد ضیاء اور تفتیشی افسر کا بیان قابل قبول شہادت نہیں جبکہ ان دونوں نے اعتراف کیا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل میری ملکیت میں ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں میرے مرحوم والد نے قائم کی جبکہ اس وقت حسین نواز کی عمر 29 سال تھی۔

سابق وزیر اعظم نے عدالت میں بیان دیا کہ میں پاکستان کا بیٹا ہوں، اس مٹی کا ذرہ ذرہ مجھے پیارا ہے، اس ملک کے حالات بدلنے کے لیے جو کچھ کیا اسے اللہ کا فضل سمجھتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت: نواز شریف نے پیشیوں کی سنچری مکمل کرلی

نواز شریف نے کہا کہ ملک میں موٹروے کا جال بچھا ہے، 5 سال میں جو کام کیے اس کی نظیر 70 سال میں نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بوری بند لاشوں والے کراچی کو امن دیا، ملک میں 19 سال بعد مردم شماری کروائی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ 2013 کے مقابلے میں 2018 میں ہر حوالے سے کہیں زیادہ روشن پاکستان دیا لیکن شاید ہی پاکستانی تاریخ میں ایسا احتساب کسی کا ہوا ہو جو میرا ہوا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں مطمئن ہوں کہ ساری نسلیں کھنگالنے کے بعد بھی میرے خلاف کوئی کرپشن کا ثبوت نہیں ہے، سارا معاملہ مفروضوں پر مبنی تھا اور مفروضوں کے ثبوت نہیں ہوتے۔

نواز شریف نے احتساب عدالت کے جج سے کہا کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام اس وقت لگایا جاتا ہے جب کرپشن کا ثبوت نہ ملے۔

اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے بچے معاشی طور پر خود کفیل ہیں، میرے بیٹے بیرون ملک موجود ہیں اور ان ممالک کے قوانین کے مطابق ہی کاروبار کر رہے ہیں۔

نواز شریف نے بتایا کہ تفتیش کے دوران کسی کاروباری معاملے میں گڑ بڑ کے ثبوت نہیں ملے، حسین نواز نے 2010 میں پیسے بھیجنے شروع کیے لیکن تب بھی میں عوامی عہدے پر نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پیسے بھجوانا ایک بیٹے کی باپ سے محبت کا ثبوت ہے، ہماری مذہبی اور معاشرتی روایت ہے کہ بچے والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: العزیریہ ریفرنس: نواز شریف نے 45 سوالات کے جوابات دے دیے

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا اور تفتیشی افسر نے حلفیہ اقرار کیا تھا کہ میرے خلاف ثبوت نہیں ملے جبکہ میں نے اس احتساب کے عمل کے دوران ہر طرح کی قربانی بھی دی، اس سارے مرحلے میں مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچا مگر میں پیچھے نہیں ہٹا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 1988 میں فاروق لغاری نے بطور وزیر پانی و بجلی اتفاق فاؤنڈری کے خلاف تحقیقات کروائیں لیکن ہمارے خلاف کوئی چوری ثابت نہیں ہوئی بلکہ الٹا 6 کروڑ روپے ہمارے واپڈا کی طرف نکل آئے جبکہ اگر اس وقت نیب ہوتا تو ہمیں ہی اندر کردیا جاتا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں اگر دھکا نہ دیا جاتا تو بیٹے شاید بیرون ملک کاروبار نہ کر رہے ہوتے، اس ملک میں سیاست دان کا بیٹا کاروبار کرلے تو جرم بن جاتا ہے جبکہ بیرون ملک جا کر کام کریں تو بھی مسئلہ بنتا ہے، ایسی صورتحال میں میرے جیسا سیاستدان کیا کرے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے اللہ پر کامل یقین ہے اور عدالت سے انصاف کی توقع ہے۔

دوران سماعت نواز شریف نے اتفاق فاؤنڈری میں جنرل یحیٰی کے دورے کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی اور ایک تصویر بھی پیش کی۔

اس موقع پر انہوں نے جج ارشد ملک سے مکالمہ کیا کہ یہ جو آمدن کے ذرائع کی بات کرتے ہیں وہ یہ تصویر دیکھ لیں، اس تصویر میں خود بھی موجود ہوں۔

اس پر جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ تصویر کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے اس اخبار کا نام اور تصویر شائع ہونے کی تاریخ بتانا ہوگی، جس پر نواز شریف نے چوہدری تنویر سے کہا کہ وہ اس تصویر کو شائع کرنے والے اخبار کا نام اور تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024