فرانس:پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج، خاتون ہلاک
فرانس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک بھر میں ‘یلو ویسٹ’ موومنٹ کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور صدر ایمانوئیل میکرن پر شدید غصے کا اظہا رکیا گیا جبکہ مظاہروں کے دوران ایک خاتون جاں بحق اور 106 افراد زخمی ہوگئے۔
فرانس کے وزیرداخلہ کرسٹوفر کیسٹینر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 2 لاکھ 44 ہزار افراد نے ملک بھر کی اہم شاہراہوں سمیت 2 ہزار سے زائد مقامات پر احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر مقامات میں کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا تاہم چند مقامات پر ڈرائیوروں کی جانب سے گاڑیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش پر تلخ کلامی کے باعث بدمزگی دیکھی گئی۔
فرانس کے مشرقی علاقے سیوئے میں ہجوم پر گاڑی چڑھنے سے ایک 63 سالہ خاتون ہلاک ہوئیں جہاں مظاہرین اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی کوشش کرنے والی خاتون کے گرد جمع ہوگئے تھے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ڈرائیورنے بدحواسی کے عالم ہجوم پر گاڑی چڑھائی تاہم انہیں حراست میں لیا گیا ہے۔
دیگر مظاہروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پولیس کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔
فرانس کو اسپین سے ملانے والی سرحد اور چند شاہراہوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ‘عوام کے غیرمنظم احتجاج پر ہم اس لیے فکرمند تھے کیونکہ وہ غیرضروری طور پر اس طرح کا رویہ اپنائیں گے’۔
دارالحکومت پیرس میں صدر میکرن کے سرکاری محل کی جانب مارچ کرنے والے مظاہرین ‘میکرن استعفیٰ دو’ کے نعرے لگارہے تھے۔
پولیس نے صدارتی محل کی جانب جانے والے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی جس پر ہاتھاپائی ہوئی اور ہزاروں مظاہرین مختلف راستوں اور گلیوں سے ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے تاہم صدر کی رہائش گاہ کے قریب پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیش کے شیل پھینکے۔
وزارت داخلہ کے مطابق 52 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور 106 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 5 کی حالت تشویش ناک ہے۔
امیروں کے صدرمستعفی ہوں، ‘یلوویسٹ’ کے نعرے
فرانس میں ایک ماہ قبل سوشل میڈیا سے شہرت حاصل کرنے والی ‘یلو ویسٹ’ نامی تحریک نے قلیل عرصے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جن کی کال پر مظاہرین نے ملک کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں کو بند کردیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ برسوں سے پیٹرولیم مصنوعات میں عائد کیے جانے والے مختلف ٹیکسوں کی چکی میں پس رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر میکرن کے خلاف تحریک اب ملک بھر میں پھیل چکی ہے۔
بلغاریہ کی سرحد کے قریب ہونے والے احتجاج میں شریک 47 سالہ الیکٹریشن فرینک ڈیرو کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ دکھارہے ہیں کہ فرانسیسی اپنی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کررہے ہیں’۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک سروے میں اس تحریک کے حق میں 73 فیصد فرانسیسیوں نے ووٹ دیا تھا۔
صدر ایمانوئیل میکرن کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ متوسط اور نچلے طبقے کو نظر انداز کررہے ہیں اور ٹیکسوں کے ذریعے کمپنیوں اور بڑے منافع خوروں کی مدد کررہے ہیں۔
مشرقی فرانس میں احتجاج کرنے والے 38 سالہ آندرے کا کہنا تھا کہ ‘میکرن غریبوں کے نہیں بلکہ امیروں کے صدر ہیں، انہیں غریبوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے’۔
واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ سبسڈیز اور بونسز کے ذریعے فیول کی قیمتوں پر غصے کا اظہار کرنے والے افراد کے غصے کو کم کردیں گے۔
صدر میکرن نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران اعتراف کیا تھا کہ وہ عوام کو ان کی قیادت کے قریب لانے میں ناکام ہوئے ہیں اور ہم انہیں مناسب توجہ نہیں دے پائے تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ قیمتوں میں اضافے کو واپس نہیں لیں گے۔