• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

کراچی پریس کلب میں سادہ لباس اہلکار غلط فہمی پر داخل ہوئے، مشیروزیراعلیٰ

شائع November 9, 2018
—فائل/فوٹو:ڈان
—فائل/فوٹو:ڈان

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس قانون نافذ کرنے والے ادارے کے مسلح عہدیدارغلط فہمی کی بنیاد پر کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے۔

مرتضیٰ وہاب کی جانب سے جاری ایک بیان میں کراچی پریس کلب میں سادہ لباس مسلح افراد کے داخلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘ابتدائی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکارجی ایس ایم لوکیٹر میں کسی مسئلے کے باعث وہاں گئے تھے’۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ انہوں نے واقعے کی انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں اور ایس ایس پی جنوبی کو اس حوالے سے ہدایات دی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی پریس کلب: سادہ لباس مسلح اہلکاروں کی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش

ایس ایس پی جنوبی نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا اور عہدیداران سے ملاقات کی۔

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ پولیس افسر نے پریس کلب کے عہدیداروں کو واقعے کی ‘اصل صورت حال’ سے آگاہ کیا اور مذکورہ صحافی پولیس کے موقف سے بظاہر مطمئن تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے تعلق رکھنے والے پولیس عہدیداران جی ایس ایم لوکیٹر کی مدد سے ‘نہایت مطلوب ہدف’ کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے تھے کہ مشتبہ شخص کا موبائل ان کے رابطے میں آیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے عہدیداروں نے مشتبہ شخص کو کراچی پریس کلب کے قریب واقع ایک گھر سے حراست میں لے لیا ہے۔

مزید پڑھیں:سینیٹ: مسلح افراد کے کراچی پریس کلب میں داخلے پر سندھ حکومت سے رپورٹ طلب

واضح رہے کہ ایک روز قبل رات گئے سادہ لباس مسلح اہلکار کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اور صحافیوں کی جانب سے انہیں ہراساں کرنے کی شکایت کی گئی تھی۔

پریس کلب کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ’رات 10 بج کر 30 منٹ پر درجنوں سادہ لباس مسلح افراد کلب میں داخل ہوئے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد نے صحافیوں کو ہراساں کیا مختلف کمروں، کیچن، عمارت کی بالائی منزلوں اور اسپورٹس ہال کا جائزہ لیا جبکہ انہوں نے جبری طور پر ویڈیوز بھی بنائے اور موبائل کیمرے سے تصویریں بھی لیں‘۔

کے پی سی عہدیداروں نے فوری طور پر ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر امیر احمد شیخ کو واقعے کے حوالے سے اطلاع دی تھی جس پر انہوں نے فوری انکوائری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک اور سیکریٹری مقصود یوسف یوسفی نے واقعے کو پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنے کی سازش قرار دیا تھا۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے کراچی پریس کلب میں سادہ لباس مسلح افراد کے داخل ہونے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے پر سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

صحافیوں کا احتجاج

دوسری جانب صحافیوں کی جانب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس واقعے کو صحافت پر حملہ قرار دیا تھا۔

صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرے میں واقعے کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومت سے اس واقعے کی تفتیش کرکے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔

صحافیوں نے کراچی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک مارچ کیا اور گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا دیا جہاں مشیر وزیراعلیٰ سندھ مرتضیٰ وہاب کے علاوہ حبیب جان اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے صحافیوں سے اظہار یک جہتی کیا۔

صدر کراچی پریس کلب احمد خان ملک، سیکریٹری مقصود یوسفی اور دیگر عہدیداروں نے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل سے ملاقات کی اور صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے واقعے کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔

گورنر سندھ سے ملاقات کے بعد مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے صدر پریس کلب احمد خان ملک نے کہا کہ گورنر سندھ نے یقین دلایا کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات ہوگی اور واقعے کے ذمہ داران سمیت تمام تفصیلات سے عہدیداروں کو آگاہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ گورنر سندھ کو کہا گیا ہے کہ حکومت اور متعلقہ اداروں سے رابطہ کرکے آگاہ کریں کہ آئندہ پریس کلب میں اس طرح داخل ہونے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ آج تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس پر انہوں نے یقین دلایا کہ وہ حکومت کو آگاہ کریں گے۔

اس موقع سیکریٹری کراچی پریس کلب مقصود یوسفی نے کہا کہ گورنر سندھ کو تفصیل بیان کی ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اس واقعے کی تحقیقات کرائیں گے۔

قبل ازیں سندھ اسمبلی کی کارروائی کے دوران کوریج کرنے والے پارلیمانی رپورٹرز نے کراچی پریس کلب پر نامعلوم مسلح افراد کے داخلے اور وہاں موجود صحافیوں اور عہدیداروں کو ہراساں کرنے کے خلاف سخت احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کرتے ہوئے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔

صوبائی مشیر اطلاعلات مرتضیٰ وہاب اور صوبائی وزیر تیمور تالپور نے صحافیوں سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ حکومت سندھ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرائے گی اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جائے گی۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کراچی پریس کلب ہمیشہ جمہوری قوتوں کی پناہ گاہ رہا ہے اس کے تقدس اور اہمیت کے بارے میں حکومت سندھ پوری طرح آگاہ ہے اور ہم اپنے صحافی بھائیوں کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ سے بھی بات کریں گے اور پولیس کے سینئر افسران پر مشتمل ایک کمیٹی بناکر حقائق کا پتہ چلا یا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024