پاکستانی طالبان شامی جنگ کا حصہ بن گئے
اسلام آباد/پشاور: صدربشار الاسد کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے کے لیے پاکستانی طالبان نے شام میں اپنے کیمپ قائم کرنے کے علاوہ جنگجو بھیج دیے ہیں۔
شدت پسندوں نے اتوار کو رائٹرز سے گفتگو میں بتایا کہ اس حکمت عملی کا مقصد القاعدہ کی مرکزی قیادت کے ساتھ تعلقات کو مزید پختہ کرنا ہے۔
بشار الاسد مخالف مہم پچھلے دو سالوں سے جاری ہے اور مشرق وسطی کا یہ ملک سنی جنگجوؤں کے لیے ایک گڑھ بن چکا ہے جو یہاں کی شیعہ حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
پاکستان میں طالبان کمانڈروں نے بتایا کہ انہوں نے بھی اس لڑائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے بقول اب تک ان کے سینکڑوں ساتھی شام میں 'مجاہدین دوستوں' کی مدد کے لیے جا چکے ہیں۔
ایک سینیئر کمانڈر کے مطابق: جب بھی ہمارے بھائیوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہو گی تو ہم اپنے عرب ساتھیوں کے ساتھ اپنے سینکڑوں جنگجو بھیجیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جلد ہی شام میں اپنی کامیابوں پر مبنی وڈیوز بھی عام کریں گے۔
پاکستانی طالبان کی جانب سے اس اقدام نے شام میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جہاں پہلے ہی 'فری سیرئین آرمی' اور شام کی سرکاری افواج کے درمیان تنازعات جان ہلاک خیز سطح تک پہنچ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ نسبتا چھوٹے مگر انتہائی منظم اسلام پسندوں کے گروپ نے شمالی شام میں باغیوں کے زیر تسلط علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
جمعرات کو فری سیرئین آرمی اور اسلام پسندوں کے درمیان اس وقت مزید تناؤ پیدا ہو گیا جب القاعدہ سے جڑے عسکریت پسندوں نے فری سیرئین آرمی کے ایک اعلی کمانڈر کو ساحلی شہر لتاکیا میں ایک تنازعہ کے بعد قتل کر دیا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب صدر اسد کی فوج، جسے حزب اللہ اور ایران کی شیعہ فورسز کی حمایت حاصل ہے، اس علاقے کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
پاکستان طالبان کے ایک اور کمانڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شام میں جنگجوؤں کو بھیجنا کا فیصلہ 'عرب ساتھیوں کی درخواست کے بعد کیا گیا'۔
انہوں نے رائٹرز کو بتایا' چونکہ عرب ساتھی ہماری مدد کے لیے یہاں آئے تھے لہذا اب ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی ان کے ملکوں میں ان کی مدد کریں اور شام میں ہم یہی کر رہے ہیں'۔
'ہم نے شام میں اپنے کیمپ قائم کر لیے ہیں۔ ہمارے لوگ وہاں جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ لڑنے کے بعد واپس آ جاتے ہیں'۔
تبصرے (5) بند ہیں