’زمبابوے اور بھارت سے کھیلنے میں فرق ہے‘
'زمبابوے سے جیتنے اور انگلینڈ سے ہارنے میں بڑا فرق ہے، زمبابوے سے تو ’انڈیا اے‘ بھی جیت سکتی ہے، بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی ون ڈے اور ٹیسٹ رینکنگ دیکھیں اور زمبابوے سے ہی کھیلتے رہیں'۔
یہ میرا بیان ہے نہ ہی تبصرہ بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشیا کپ کے میچ کے آغاز سے چند گھنٹوں قبل سابق بھارتی بلے باز گوتم گمبھیر نے دونوں ملکوں کے سابق کرکٹرز پر مشتمل نجی ٹی وی کے ایک شو میں یہ بیان دیا جس پر شو کے دوران ہی بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن اس بات سے قطع نظر گمبھیر ایک اہم پیغام چھوڑ گئے جو ہماری ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
گوتم گمبھیر کا یہ بیان ایک تلخ حقیقت سے کم نہیں کیونکہ جہاں بھارت ٹیسٹ اور ون ڈے میں بالترتیب عالمی نمبر ایک اور عالمی نمبر 2 کے منصب پر براجمان ہے، وہیں پاکستانی ٹیم ون ڈے میں پانچویں اور ٹیسٹ میں ساتویں نمبر پر موجود ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہم نے چیمپیئنز ٹرافی ہو یا ورلڈ کپ، دونوں ایونٹس کے لیے بمشکل ہی کوالیفائی کیا تھا۔
گزشتہ سال چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں فتح سے لے کر اب تک بظاہر تو سب کچھ اچھا نطر آرہا ہے لیکن اگر چیزوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو سابق بھارتی کرکٹر کا یہ بیان من و عن درست ثابت ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز برابر کھیلی لیکن ون ڈے کرکٹ میں کمتر ٹیموں کے خلاف میچز میں مسلسل کامیابیوں نے پاکستان ٹیم کی ان خامیوں پر پردہ ڈال دیا تھا جو بھارت کے میچ میں بالکل عیاں ہوکر رہ گئیں۔
روایتی حریف سے چیمپیئنز ٹرافی میں ہونے والے میچ سے لے کر ایشیا کپ میں میچ تک پاکستانی ٹیم نے کُل 16 میچ کھیلے جن میں سے 11 میں کامیابی حاصل کی اور فتح کا یہ تناسب 70 فیصد سے زائد بنتا ہے۔
اس دوران پاکستانی ٹیم نے سری لنکا کی ٹیم کے خلاف ون ڈے سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ کیا۔ جی ہاں وہی سری لنکن ٹیم جسے رواں ایشیا کپ میں کمزور بنگلہ دیش اور افغانستان نے بدترین شکست دے کر ایشیا کپ کی دوڑ سے باہر کردیا ہے۔
پھر اس کے بعد زمبابوے جیسی اوسط درجے کی ٹیم کو بھی باآسانی 0-5 سے شکست دی اور کئی ریکارڈ بھی بنائے جبکہ ہانگ کانگ کو بھی باآسانی شکست دی۔
اس دوران رواں سال کے آغاز میں قومی ٹیم کا اصل امتحان اس وقت تھا جب وہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کھیلنے انہی کی سرزمین پر گئی۔ ایشیا کپ کی طرح اس سیریز سے قبل بھی بلند و بانگ دعوے کیے گئے لیکن نتیجہ کچھ یوں تھا کہ ٹیم کو نہ صرف سیریز میں 0-5 سے شکست ہوئی بلکہ کم و بیش ہر میچ میں ٹیل اینڈرز نے ہی بیٹنگ کرکے قومی ٹیم کو بدترین رسوائی سے بچایا۔
دوسری جانب اگر بھارتی ٹیم کو دیکھا جائے تو اس نے اسی دورانیے میں 33 ون ڈے میچ کھیلے جن میں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا جیسی کمزور ٹیموں کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ہوم سیریز جبکہ انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کے خلاف گھر سے باہر کھیلی گئی سیریز بھی شامل ہے اور حیران کن طور پر انگلینڈ کے خلاف سیریز 1-2 سے ہارنے کے علاوہ بھارت نے تمام ون ڈے سیریز میں کامیابی اپنی نام کی۔
ویسے تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز ہی ہماری ٹیم کی اصل قابلیت کی عکاسی کرنے اور آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھی لیکن ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے اپنی ٹیم کی فتوحات کے گن گاتے رہے۔
ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر 'چیمپیئن' ٹیم کا جھومر ماتھے پر سجائے قومی ٹیم بلند و بانگ دعووں کے ساتھ متحدہ امارات میں موجود ہے۔
اس کو خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ گزشتہ کچھ سالوں سے امارات ہی ہمارا ہوم گراؤنڈ ہے۔ ایونٹ سے پہلے بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ ٹیم بہت متوازن ہے، بیٹنگ اچھی ہے، فٹنس شاندار اور باؤلنگ جاندار لہٰذا ہم ہی جیتیں گے، لیکن بھارت کے خلاف میچ نے حقیقت کو آشکار کردیا۔
بیٹنگ اور باؤلنگ میں ناکامی کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم حکمت عملی سے بھی بالکل عاری نظر آئی اور کسی بھی موقع پر کنڈیشنز اور وکٹ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جس نے ٹیم کی تیاریوں اور ورلڈ کپ سے قبل کئی اہم مسائل کو جنم دے دیا ہے۔
حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو گزشتہ 14 ماہ کے دوران قومی ٹیم کو محض ایک مرتبہ نیوزی لینڈ کے خلاف مشکل صورت حال اور ایک بہتر حریف کا سامنا کرنا پڑا اور اس امتحان میں کامیابی تو دُور بلکہ وہ حریف ٹیم کا کسی بھی میچ میں مقابلہ کرنے سے بھی قاصر رہی۔
ٹیم کی باؤلنگ لائن نے کم و بیش تمام ہی مواقعوں پر توقعات پر پورا اترتے ہوئے فتح ٹیم کی جھولی میں ڈالی لیکن بڑی ٹیموں کے خلاف بیٹنگ لائن کی ناکامیوں کا سلسلہ رکنے کا نام ہی لے رہا۔
بیٹنگ لائن میں فخر زمان نے گوکہ رنز کے انبار لگائے لیکن ان کی بیٹنگ تکنیک کی خامیاں کئی مرتبہ ابھر کر سامنے آئیں لیکن سب اچھا ہے کی گردان لگا کر ان سے منہ موڑ لیا گیا جبکہ امام الحق کو بھی وقت سے بہت پہلے اس مقام پر پہنچادیا گیا ہے جس کے وہ کم از کم فی الحال تو ہرگز اہل نہیں۔
تاہم سب سے اہم مسئلہ جوں کا توں رہا اور اس کو حل کرنا تو درکنار، بلکہ بات کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور وہ ہے مڈل آرڈر بیٹنگ۔
پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ ضرورت پڑنے پر مسلسل ناکام ہوتی رہی ہے اور خصوصاً کپتان سرفراز احمد کی کارکردگی اور آصف علی کی فائنل الیون میں موجودگی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
گزشتہ 2 سال کے دوران سرفراز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے کُل 28 میچوں میں 3 نصف سنچریاں اسکور کیں جو بالترتیب ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف تھیں۔
گزشتہ سال چیمپیئنز ٹرافی سے لے کر اب تک 21 میچوں میں سے 10 میں سرفراز کو بیٹنگ کا بھی موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے انہیں بیٹنگ پریکٹس نہ مل سکی لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قومی ٹیم کے کپتان خود اپنی بیٹنگ سے انصاف نہیں کر پا رہے۔
سرفراز اپنے بیٹنگ اسٹائل کے باعث بحیثیت اوپنر سب سے مفید ثابت ہوسکتے ہیں جب صرف 2 فیلڈرز دائرے سے باہر ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے ٹیلنٹ سے مستقل ناانصافی کرتے ہوئے مڈل آرڈر میں جگہ تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
اس پر مڈل آرڈر پر ستم ظریقی یہ کہ ٹی20 کے چند چھکوں کی بنیاد پر آصف علی کو ٹیم میں شامل کرکے حارث سہیل جیسے باصلاحیت بلے باز کے ساتھ حق تلفی کی جا رہی ہے حالانکہ بائیں ہاتھ کے بلے باز باؤلنگ کی بھی اضافی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے ڈھیر لگانے والے شان مسعود کی جگہ امام الحق پر تکیہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ وہ تکنیکی اعتبار سے دونوں اوپننگ بلے بازوں سے بہت بہتر ہیں۔
فاسٹ باؤلر محمد عامر کی مسلسل اوسط درجے کی کارکردگی بھی ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ بن چکی ہے اور سوال یہ ہے کہ آخر چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی بنیاد پر انہیں کب تک مسلسل موقع دیا جاتا رہے گا۔
گزشتہ 10 میچوں میں محمد عامر نے 85 سے زائد کی اوسط سے صرف 3 وکٹیں حاصل کی ہیں اور ان کی اس مسلسل اوسط درجے کی کارکردگی باؤلرز اور ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی ٹیم کی اس خراب کارکردگی کا برابر کا ذمہ دار ہمارا میڈیا اور سابق کرکٹرز بھی ہیں جنہوں نے چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد ہماری ٹیم کو آسمان پر پہنچا دیا اور پھر زمبابوے اور آئرلینڈ جیسی ٹیموں کو ہرانے کے بعد ہم نے اپنی ٹیم کا صف اول کی ٹیموں سے موازنہ شروع کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ بھی کافی حد تک قومی ٹیم کی خراب کارکردگی کا ذمہ دار ہے جس نے درمیان میں قومی ٹیم کی کوئی مصروفیت نہ ہوتے ہوئے بھی کسی بڑی ٹیم کے ساتھ سیریز کے انعقاد کی کوشش نہ کی اور ہمارے کھلاڑی اس اعلیٰ معیار کی کرکٹ سے خود کو ہم آہنگ نہ کرسکے جس کا انہیں عالمی کپ جیسے بڑے ایونٹ میں سامنا کرنا پڑے گا۔
ورلڈ کپ میں اب محض 9 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے لیکن ابھی تک ہماری ٹیم کی بیٹنگ لائن خصوصاً مڈل آرڈر کا تعین نہیں کیا جاسکا جبکہ ٹاپ آرڈر کے مسائل بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن سے قومی ٹیم کی مینجمنٹ کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔
اب قومی ٹیم کے افغانستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے میچ ہیں جن میں وہ ممکنہ طور پر کامیابی حاصل کرلے اور پھر شاید ایشیا کپ بھی جیت لے لیکن سوال جوں کا توں اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ہم اس طرح زمبابوے اور آئرلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف فتح حاصل کرکے عالمی کپ جیت سکیں گے؟
گوتم گمبھیر کی بات چاہے کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے سنجیدگی سے مسئلے کو حل کرنا ہوگا،ورنہ ورلڈ کپ میں بھی ہمیں کہیں ایسی ہی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن تب پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں