افسانہ: برفی
یہ خوشی کی بات تھی یا پھر اس کی دنیا لٹ چکی تھی؟ لوگ اس کے ساتھ اظہارِ افسوس کر رہے تھے، ظاہری طور پر محمد شریف بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز تھا۔ ناجانے کیوں وہ متاع زندگی لٹانے کے بعد خود کو دنیا کی فکروں سے آزاد محسوس کر رہا تھا۔
یہ راز اس پر آج کھلا تھا کہ فکریں ان چیزوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، جن کو ہم اللہ کی نعمتیں سمجھتے ہیں، جن کی خاطر ہم تیز آندھی کے ساتھ اڑنے والے ہزاروں کاغذوں کی طرح بستیوں سے نکل کر بیابانوں اور ویرانوں کی طرف سفر کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت شریف پر آج کھلی تھی کہ خواہشوں اور ضرورتوں کے ریتیلے راستے اُسے اُس صحرا میں لے آئے تھے، جس کی گلیاں قبر کے بند اور اندھیرے کمروں میں آکر ختم ہوتی ہیں۔
جیسے ہی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی، شریف کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سر کا بوجھ ہلکا ہوتا جا رہا ہے۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جسے صدیوں سے یہ منوں مٹی اس نے دیمک لگے شہتیروں کی طرح اپنے کمزور اور لاغر کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ برسوں سے یہ بوجھ اس کے سر پر تھا۔ شریف سارا دن مزدوری کرتا، جون جولائی کی سخت دھوپ میں 3 منزلہ عمارتوں تک 16، 16 اینٹیں دابڑے میں ڈال کر لے جاتا، ہر روز شام کو سیمنٹ، بجری، ریت، گاڈر اور پھٹے اٹھانے کا بوجھ ختم ہوجاتا لیکن یہ عجیب بوجھ تھا، نہ دن کو ہلکا ہوتا نہ رات کو۔
ہر رات کسی حقے میں جلتے بجھتے کوئلے کی طرح شریف کی آنکھیں گھنٹوں نیند کا انتطار کرتیں لیکن دماغ اپنی ہی جمع تفریق میں مصروف رہتا۔ جہیز کہاں سے آئے گا؟ لال گوٹے والا سوٹ، ٹرنک، بسترے، کھیس، سلائی کی مشین، ایسی درجنوں چیزیں گھنٹوں تک کسی درزی کی قمیض کے ساتھ لٹکے ہوئے رنگ برنگے دھاگوں کی طرح اس کا پیچھا کرتی رہیتں۔
مزید پڑھیے: افسانہ ’نکاح‘
پچھلے سال نکلنے والی کمیٹی سے ابھی تک ایک چھت والا پنکھا اور ایک ڈنر سیٹ ہی تو خریدا تھا، باقی سامان کیسے بنے گا۔ کوثر کو کہا بھی تھا کہ ڈنر سیٹ نہ خریدو، فضول خرچی کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ اس کی جگہ رضائیاں بنالی ہوتیں تو زیادہ اچھا رہتا لیکن آج کل کی اولاد تو ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔ جتنا مرضی سمجھا لو، مرضی آخر کار ان کو اپنی ہی کرنا ہوتی ہے۔ سردیوں، گرمیوں، بادلوں، ہوا، آندھی سے بے نیاز شریف کی ہر رات ایسے ہی سوالوں کے ستاروں سے سجی رہتی اور وہ گھنٹوں تک کسی سرکاری اسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھنے والے بچے کی طرح ان کو گنتا رہتا۔
کوثر روزانہ جھاڑو دیتے ہوئے دبے دبے لفظوں میں کہتی کہ ابّا پورے صحن کو گندا نہ کیا کر۔ تھوکیں ایک ہی جگہ پھینکا کر۔ ابّا روزانہ ’او ٹھیک ہے‘ کی ہلکی سی آواز نکالتا اور یوں کبھی نہ ختم ہونے والایہ فعل اس دن کے لیے ختم ہوجاتا۔
شریف اندھیرے کی نمازیں ہمیشہ گھر پر ہی پڑھتا۔ اندھیرے میں اسے ہمیشہ اس خزانے کے لٹنے کا ڈر رہتا، جس کو وہ خود کسی کی جھولی میں ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ نمازیں مسجد میں پڑھنے کے بجائے بیٹی کی حفاظت کو اوّلین فریضہ سمجھتا تھا اور اپنے اس فریضے کی ادائیگی میں اس نے آج تک کوتاہی نہیں کی تھی۔ شریف کام پر جانے سے پہلے چولہے سے 4 گز کے فاصلے پر بیٹھ کر اپنی موٹی موٹی تھوکوں کی صورت میں مرغیوں اور چوزوں کو غذا فراہم کرتا رہتا، جبکہ کوثر ابّا کے لیے ڈالڈا گھی میں تلے ہوئے پراٹھے بنانے میں مصروف ہوجاتی۔
چوڑے سینے اور سپاٹ چہرے والا مستری یوسف شریف کا پرانا دوست تھا۔ شریف جب بے روزگاری کے مارے اپنا آبائی گاؤں نیاز پور چھوڑ کر نوشہرہ ورکاں آیا تھا، تو اس کی پہلی دیہاڑی مستری یوسف کے ساتھ ہی لگی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرخ گالوں والا مستری یوسف ٹھکیدار کہلانے لگا لیکن شریف اپنے عہدے پر ہی فائز رہا۔ شریف نے کئی بار سوچا کہ وہ بھی مزدوری چھوڑ کر مستریوں کا کام سیکھ لے لیکن اس کے لیے اسے کسی کی شاگردی اختیار کرنا پڑتی اور شاگرد ہمیشہ مفت میں کام کرتے تھے، جو شریف کے لیے ناممکن تھا۔
ٹھیکیدار یوسف کی جب بھی لین دین پر اپنے بھائیوں سے لڑائی ہوتی تو وہ شریف ہی کو ساری داستانیں سناتا تھا اور شریف اس کی ہر ناجائز بات پر بھی یہی کہتا تھا کہ قصور تمہارے بھائیوں کا ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ شریف اسے اچھا لگتا تھا۔ مستری یوسف کو جہاں بھی ٹھیکہ ملتا وہ شریف کو مزدوری کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا۔ جن دنوں یوسف کو کام نہ ملتا شریف بھی بس گھر ہی پڑا رہتا۔ اس کو معلوم تھا کہ وہ کسی اور ٹھیکہ دار کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ اس کو تو ہر آدھے گھنٹے کے بعد سگریٹ کے وقفے کی ضرورت ہوتی تھی۔
برسوں سے گاؤں کے کچے پکے راستوں پر چلنے والے ٹانگے کی طرح اس کی ہڈیاں بھی ڈھیلی پڑچکی تھیں۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جب بھی وہ اٹھتا اس کی ہائے ضرور نکلتی۔ ’کے ٹو‘ سگریٹ کی 4 روپے والی ڈبیہ اس کا آخری سہارا تھی۔ انتہائی کڑوے تمباکو والے سگریٹ کے لمبے لمبے کش اس کے لیے آکسیجن کا کام کرتے تھے۔ لاہور کے گنگا رام ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں داخل کینسر کے مریض کی طرح اُسے پکا یقین تھا کہ جس دن وہ آکسیجن بھرے سگریٹ چھوڑ دے گا، اسی دن اس کی موت واقع ہوجائے گی۔
شریف آج پھر کام سے گھر واپس آتے ہوئے صدیق حلوائی کی دکان سے آدھا کلو برفی لایا تھا۔ کوثر دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ آج پھر اسے کوئی دیکھنے کے لیے آ رہا ہے۔
اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی بے بسی اور غم تھا، بالکل ویسا غم جیسا کسی میلے میں ماں سے جدا ہوجانے والے 3 سالہ بچے کی آنکھوں میں ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں وہ ماں کے گلے لگ کر اور ہچکیاں باندھ کر رونا چاہتی تھی، پتہ نہیں کیوں وہ پاؤں زمین پر رگڑتے ہوئے کوئی بات منوانا چاہتی تھی۔ کوثر 10 برس کی تھی کہ اس کی ماں دمے کی بیماری کی وجہ سے چل بسی۔ تب سے لے کر آج تک ہزاروں ایسی راز و نیاز کی باتیں تھیں، جو اس کے دل کے قبرستان میں دفن تھیں اور یہ ساری باتیں وہ رو رو کر اپنی ماں کو بتانا چاہتی تھی۔
ماں کی وفات کے بعد اس کا کئی بار دل چاہا کہ وہ ابّا سے کہے کہ وہ بالیاں لینا چاہتی ہے لیکن نہ کہہ سکی۔ اس کا کئی بار دل چاہا کہ وہ پلاسٹک کی پھولوں والی چپل کے بجائے ہیل والی جوتی پہنے مگر وہ خاموش ہی رہی، اس نے کئی بار سوچا کہ چھوٹی عید پر فیروزی کپڑوں کے ساتھ میچنگ والی فیروزی چوڑیاں پہنے لیکن ایسی عید کبھی بھی نہ آئی۔ اب تو بھولے سے بھی کوئی خواہش اس کی زباں پر نہیں آئی تھی۔ شاید مقدروں کا کھیل اُسے سمجھ آچکا تھا۔
مزید پڑھیے: افسانہ 'سیلن'
اسے معلوم تھا کہ وہ اور اس کا ابّا مل کر بھی ستارے نہیں گن سکتے۔ وہ جانتی تھی کہ ابّا کو رات بھر نیند کیوں نہیں آتی، ابّا کے سفید بالوں اور کیکر کی لٹکی ہوئی سخت ٹہنیوں کی طرح جھکے ہوئے کندھوں کی وجہ شاید وہ جان چکی تھی۔ اُسے پتہ تھا کہ کوّے روزانہ منڈیر پر بیٹھ کر اسے کیا پیغام دیتے ہیں۔ وہ جان چکی تھی کہ ابّا جس خزانے کی حفاظت پر معمور ہے، اس کی چوری کے لیے کوئی بھی نہیں آئے گا۔
کبھی کبھی کوثر ماں کے بارے میں سوچتی تو اسے وہ دن بھی یاد آتے، جب اماں اپنے ہاتھوں سے سرمے کی لمبی لمبی سلائیاں اس کی آنکھوں میں ڈالتی تھی۔ کوثر کو آج تک وہ دن بھی نہیں بھولا، جس دن ماں اس کے لیے ایک روپے کا جامنی رنگ والا ہیئر بینڈ لے کر آئی تھی۔ اس دن وہ کس قدر خوش تھی۔ ہر 2 منٹ بعد پلاسٹک کے فریم میں جڑے ہوئے 6 روپے والے شیشے میں اپنے بال اور چہرہ دیکھتی اور پھر اپنی سہلیوں کے ساتھ اسٹاپو کھیلنا شروع کردیتی۔
اس دن کتنی چمک تھی کوثر کی آنکھوں میں لیکن آج اس کی آنکھوں میں دسمبر کی دھندلی، ٹھنڈی اور یخ بستہ راتوں جیسی خاموشی اور اندھیرا تھا، جن سے کبھی کبھار کوئی پتھریلا آنسو گرتا، تو پتا چلتا کہ ان میں کوئی رہتا ہے اور ان خشک آنکھوں کا یہ مکین بھی کوثر کے مہرون رنگ کے کوکے تک پہنچتا پہنچتا دم توڑ دیتا۔ وہ ایک ہی ڈرامے کا ایک ہی سین پچھلے 7 برسوں سے دیکھتی آ رہی تھی۔ شاید اسے یقین ہوگیا تھا کہ اس ڈرامے کا کوئی منطقی انجام نہیں ہے۔ شاید وہ مقدروں کا کھیل سمجھ چکی تھی۔
شریف نے کھنگارتے ہوئے تھوک دیوار پر پھینکی، ’یہ لے تیئے مٹھائی رکھ لے، آج میرے کچھ جاننے والے آ رہے ہیں اور تم بھی منہ پر ٹھنڈے پانی کے چار چھینٹے مار لو، مہمان ایسے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے‘۔ کوثر نے جنگ اخبار کا بنا ہوا کاغذی لفافہ پکڑتے ہوئے بوڑھے باپ کی سیاہ و سفید داڑھی اور سلوٹوں والے چہرے پر نظر ڈالی اور جی ابّا جی کہہ کر خاموش ہوگئی۔ وہ ابّے کو بتانا چاہتی تھی کہ اندر سے یہ مٹھائی کتنی کڑوی ہے، وہ بتانا چاہتی تھی کہ صدیق حلوائی اس میں میٹھا نہیں کڑواہٹ ڈالتا ہے اور جو کوئی بھی کھاتا ہے، اسے پسند کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ پتا نہیں اسے کس چیز نے روکا ہوا تھا اور وہ خاموش ہی رہی۔
شریف نے اپنی میلے سے آسمانی رنگ والے کرتے کی بغل والی جیب سے ’کے ٹو‘ سگریٹ کی ڈبیہ نکالی، سگریٹ منہ میں رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے پیالی بناتے ہوئے ہاکی ماچس کی تیلی سے سلگایا اور نیم کے درخت کے نیچے پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر لمبے لمبے کش لگانے لگا۔
برسوں سے بارش اور دھوپ میں پڑی رہنے والی یہ میلی گھسی چارپائی شریف کا وزن بھی خاموشی سے برداشت نہ کرپائی اور ایک دم شریف کی ہڈیوں کی طرح اس سے بھی چوں چراں کی کئی آوازیں نکلیں، شریف کے بیٹھتے ہی اس پر پڑی چڑیوں کی سوکھی ہوئی بیٹھیں الٹ بازیاں کھاتی ہوئی اس کے بے ترتیب انگلیوں والے پیروں کے قریب اکھٹی ہو گئیں۔ لیکن شریف ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بے نیاز لمبے لمبے کش لینے اور گرمی دور کرنے میں مصروف رہا۔ آج واقعی بڑی گرمی تھی۔ آج اسے کئی بار کام چھوڑنا پڑا، وہ تو اللہ بھلا کرے یوسف ٹھیکیدار کا، جو یاری بیلی میں کام پر ساتھ لے جاتا، ورنہ آج کل بوڑھوں کو کون کام دیتا ہے۔ ابّا کوئلے سے چلنے والی ٹرین کی طرح کبھی ناک اور کبھی منہ سے دھواں نکالتا رہا اور کوثر نیم کے گرے ہوئے تیکھے نینوں والے پتوں کو گم سم دیکھتی رہی۔
کوثر اس دن کتنی خوش تھی، جب پہلی مرتبہ اس کا رشتہ دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آ رہے تھے۔ مہمانوں کے آنے سے ایک دن پہلے اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ گھر کے بیرونی دروازے کے کلیجی رنگ کے پردے سے لے کر چارپائیاں تک اس نے دھو ڈالی تھیں۔ نلکے اور غسل خانے کی لال رنگ کی اینٹوں والا پکا فرش رگڑ رگڑ کر صاف کیا تھا۔ ٹوٹی نالیوں والی تنگ گلی میں کھلنے والے داخلی دروازے کے سامنے لگی سرکاری اینٹیں بھی باقی گلی کی اینٹوں سے الگ نظر آ رہی تھیں۔
ساری رات خوشی کے مارے اس کی آنکھوں نے ایک پل کے لیے بھی سونا گوارا نہ کیا تھا۔ اس رات اس نے کیا کیا نہیں سوچا تھا۔ میں کل کون سے کپڑے پہنوں گی۔ پچھلی عید پر نیلے رنگ کے پھولوں والا، جو کاٹن کا سوٹ لیا تھا، وہ ٹھیک رہے گا۔ اس پر لیس بھی تو لگی ہوئی ہے اور ابھی نیا ہی تو لگتا ہے۔ پتہ نہیں میرے وہ دیکھنے میں کیسے ہوں گے۔ میں ان کے ساتھ ساتھ چلوں گی تو بھلا کیسی لگوں گی۔ میرا قد بھی تو ان سے بڑا نہیں ہونا چاہیے، بھلا لمبی قد والی لڑکیاں چھوٹے قد والے لڑکوں کے ساتھ کہاں جچتی ہیں۔ شادی والے دن لال رنگ کے گوٹے والے سوٹ کے ساتھ سلمہ ستاروں والا دوپٹہ ٹھیک رہے گا، اور لال رنگ کی سرخی بھی تو لینی پڑے گی۔
رضیہ کو ساتھ لے کر بازار جاؤں گی۔ مجھے تو کچھ کہتے ہوئے بھی بہت شرم آئے گی۔ پہلی رات وہ مجھے منہ دکھائی پتہ نہیں کیا دیں گے۔ اگر 2 ماشے کا سونے والا لاکٹ ہو تو پورے محلے کی لڑکیوں کو بتاؤں گی۔ اگر میرے ہاں بیٹی ہوئی تو میں اسے ضرور فیروزی رنگ کے سوٹ کے ساتھ میچنگ والی چوڑیاں ہی لے کردوں گی اور عید پر تو اسے ہیل والی جوتی ضرور لے کر دوں گی۔ یہ پلاسٹک کی چپل بھی بھلا کوئی عید پر پہنتا ہے؟
آغاز اور انجام سے بے نیاز اسی طرح کے ہزاروں خیال اس کے ذہن میں آئے تھے۔ اس روز اس کی پکّی سہیلی رضیہ خاص طور پر اسے مہندی لگانے آئی تھی۔ اس رات دیر تک وہ دونوں آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے کان میں کچھ راز کی باتیں کرتی اور پھر ہنستی رہی تھیں۔ لیکن آج تو رضیہ بھی نہیں تھی، جو اسے مہندی لگاتی اور راز کی وہ باتیں کرتی، جو صرف 2 سہیلیاں ہی ایک دوسرے سے کرسکتی ہیں۔ رضیہ کی شادی کو بھی 2 سال بیت چکے تھے لیکن کوثر کی خواہشوں نے ابھی بھی اپنے خیالوں اور کیکر کے دروازے کی دہلیز سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔
اسے دیکھنے کے لیے درجنوں مہمان آئے لیکن صدیق حلوائی کی مٹھائی کا جادو کسی پر نہ چل سکا۔ کسی کو گھر اچھا نہ لگا تو کسی کو لڑکی پسند نہ آئی، کسی کو برادری میں منہ دکھانے کے لیے جہیز چاہیے تھا تو کسی کو آٹومیٹک واشنگ مشین کی شدید ضرورت تھی، کسی کو ہمسائے اچھے نہ لگے اور کسی کو تنگ گلی میں بارات لانے میں دشواری تھی۔
آج بھی کوثر کو یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح یہی کچھ ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ اٹھی اور بغیر صابن کے منہ ہاتھ دھونے چلی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد چوٹیا بنا کر واپس آئی اور اُپلوں کی جان لے لے کر سیاہ ہوجانے والے مٹی کے چولہے کے سامنے دوبارہ بیٹھ گئی۔
مزید پڑھیے: ٹوبہ ٹیک سنگھ
محمد شریف بھی اٹھا اور نلکے سے پانی نکال کر ہاتھ منہ دھونے لگا۔ شریف کے ہاتھوں اور بانہوں کے سُنہری بال اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ کڑکتی دھوپ میں مستریوں کے ساتھ وہ ایک عرصے سے کام کر رہا ہے۔ اس نے سرمئی رنگ کی میلی کچیلی تہمد کو ایک ہاتھ سے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور مٹی سے اٹے ہوئے پیروں کو فرش پر لگی اینٹوں کے ساتھ رگڑ رگڑ کر دھونے لگا۔ اس کی ایڑیوں میں ایسی دراڑیں پڑچکی تھی، جیسے زلزلہ آنے کے بعد کچے مکانوں کی دیواروں میں پیدا ہوجاتی ہیں۔
مغرب کی اذان کے بعد شریف نماز پڑھ رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کٹھکھٹایا، وہ سمجھ گیا کہ کون ہوسکتا ہے۔ شریف نے فوراً سلام پھیرا اور دروازے کا کواڑ کھولنے کے لیے بھاگا۔ شریف اندر سے پکا مسلمان تھا۔ اس نے کبھی بھی نماز نہیں توڑی تھی لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ اور تھا۔ مہمانوں کی خاطر مدارت کرنا تو آخر ضروری ہوتا ہے۔ وہ آدھا کلو مٹھائی بھی تو لایا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد مہمان رخصت ہوئے تو شریف ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل پہن کر گلی کی نکڑ تک انہیں چھوڑنے کے لیے بھی گیا۔
جمیل صاحب آپ کو ہمارا گھر پسند تو آیا؟ شریف کی پُرنم آنکھوں میں اور خشک ہونٹوں پر ایک عجیب سی التجا تھی۔ اسی ایک سوال کے پیچھے وہ ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ اپنے نئے مہمانوں کے سامنے وہ ایک ہی وقت میں قیام، رکوع اور سجدہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ شریف کا دل اندر ہی اندر دہائیاں دے رہا تھا۔ خدا کے لیے میری بیٹی کا رشتہ لے لو۔ شریف کے کان ہاں جیسا 3 ہندسی لفظ سننے کے لیے کئی برسوں سے ترس رہے تھے۔ روز بروز قوتِ سماعت سے محروم ہوتے ہوئے یہ کان آج بھی یہ لفظ سننے سے محروم ہی رہے۔
چائے کی پیالیاں سمیٹتے ہوئے کوثر کی نظریں ان پر بنے ہوئے رنگ برنگے پھولوں پر جمی رہیں۔
’ابّا ان لوگوں سے کہو کہ وہ اب ہمارے گھر پر نہ آیا کریں‘۔ آج کوثر میں اتنی ہمت پتا نہیں کہاں سے آئی تھی۔ وہ تو ابّا کے سامنے کبھی بولی ہی نہیں تھی۔ وہ تو اسے بے ادبی سمجھتی تھی، جہنم کا سامان سمجھتی تھی۔ آج پتا نہیں وہ کیوں یہ بے ادبی کر رہی تھی۔ کیا وہ دوزخی ہونا چاہتی تھی؟ اپنی آخرت کو بھلا ایسے کون خراب کرتا ہے ؟
’تیئے ایسے نہیں کہتے، مہمان تو رب سچے کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس طرح کہنے سے اللہ جی ناراض ہوتے ہیں۔ منہ سے نکلی ہوئی بات کسی وقت بھی قبول ہوسکتی ہے‘۔ لیکن شاید یہ قبولیت ہی کی گھڑی تھی۔ آج کی رات بھی شریف ڈنر سیٹ کے بارے میں سوچتا رہا، ڈنر سیٹ خرید کر غلطی کی ہے، اس کی جگہ 4 رضائیاں بن سکتی تھیں۔
کوثر کو بھی آج پتا چل چکا تھا کہ ابّے کو نیند کیوں نہیں آتی اور ڈنر سیٹ خرید کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ کوثر کی چارپائی ابّا سے تو قریب تھی لیکن وہ باتیں اپنی اماں سے کر رہی تھی۔ آج وہ اپنی اماں کے گلے لگ کر سارے دکھڑے سنا رہی تھی۔ آج واقعی قبولیت کی گھڑی تھی۔ گھر میں پڑی گندم کی زہریلی گولیاں شاید صدیق حلوائی کی برفی سے زیادہ میٹھی تھیں۔