آپ کے بچے ڈیجیٹل میڈیا پر کیا دیکھ رہے ہیں؟
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ اپنے بچے کی ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے کب سے کام کرنا شروع کیا جائے تو دیر مت کیجیے یہی اچھا وقت ہے۔
بچوں اور والدین کے سروے سے پتا چلا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو انٹرنیٹ اوسطاً 3 برس کی عمر میں استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مزید برآں، جتنا والدین سمجھتے ہیں بچے اس سے دگنا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
والدین کی جانب سے فونز اور دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز کے لیے کنٹرولنگ ایپس کے باوجود چھوٹے بچے ہر دن اوسطاً 2 گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں اور اس دوران، بچے اپنی عمر اور فونز پر گزارے جانے والے وقت کے حساب سے والدین کی جانب سے انسٹال کنٹرول ایپس کا توڑ نکال لیتے ہیں اور ڈیوائسز کے ذریعے خود کو نقصان پہنچانے والی ویڈیوز، فحش مواد، کلینیکل مسائل جیسے کھانے کی عادات میں مسائل اور دیگر مسائل کی نوبت تک پہنچ جاتے ہیں اور ایسی کئی چیزوں تک بھی جو خود ان کے نزدیک دشواری کا باعث بنتی ہیں۔
وہ اکثر اپنی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر شیئر کردیتے ہیں جو دیگر افراد تک پہنچتی ہے اور ان کے لیے بلینگ یا (ہراساں) کیے جانے کی وجہ بنتی ہے۔
یہ کسی بدترین طوفان سے گھرے رہنے سے کم نہیں کیونکہ بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا تک کھلی رسائی ہوتی ہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتے ہیں دیکھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ جبکہ والدین اس گمان کا شکار ہوتے ہیں کہ بچے انڈر کنٹرول ہیں۔
مگر ڈیجیٹل میڈیا کو باآسانی ’اچھے‘ یا ’برے‘ کا لیبل نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں دونوں باتیں ہوسکتی ہیں اور ان میں سے کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ ہم جانتے ہیں کہ جگھڑالو ویڈیو گیمز کھیلنے سے رویوں پر بھی جھگڑالو پن پیدا ہونے لگتا ہے۔ جبکہ یہ حقیقت بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ پرو سوشل یا سماج پسند ویڈیوز، جن میں ایمانداری، احترام اور رحم دلی کے اسباق شامل ہوتے ہیں، دیکھنے سے سماج پسند رویے پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی روزمرہ کی تعلیمی اور اسکول کی سرگرمیوں اور تعلیم کے بعد ملازمت کے مواقع کی تلاش کے لیے کافی ضروری ہے۔ بچوں کو نہ صرف ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی کی ضرورت اور وہاں کھلنے والی دنیا کی ضرورت ہے بلکہ اس میڈیا کے استعمال کے لیے بچوں میں ضروری قابلیت کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
آپ بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا سے مکمل طور پر منقطع نہیں کرسکتے لیکن اگر سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے آپ کے گھر میں مسائل پیدا ہورہے ہیں تو مندرجہ ذیل چند تجاویز ہیں جو آپ کو بطور والد یا والدہ بچوں پر ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال پر کنٹرول رکھنے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
اسکرین ٹائم محدود کردیں
اکثر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے گھنٹوں، پوری پوری رات، جبکہ چھٹی کے دن تو پورا دن ہی اسکرین کے سامنے گزار دیتے ہیں۔ کچھ بچے تو اس دوران کھانے کا وقفہ بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسی صورتحال میں اسکرین ٹائمنگ کو محدود کرنا درست ہے۔ مگر بچوں پر یہ پابندیاں کیسے لگائی جائیں، اس کے لیے یا تو والدین کے لیے بنائی گئی پیرنٹل کنٹرول ایپس کی مدد لی جاسکتی ہے یا پھر خود آپ نگرانی کریں۔
یہ پابندیاں نہایت ضروری ہیں۔ اگر اسکرین کنٹرول کے لیے سخت عمل یا بحث کی جائے تو اس کا ردِعمل کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ محدود اسکرین کے استعمال کے بارے میں بچوں کو ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کریں، ان سے مکالمہ کریں (کبھی بھی بچوں سے ’بس میں نے کہا ہے نا‘ یا میری لاش پر سے گزر کر‘ جیسے سخت جملے نہ بولیں)۔ حتٰی کہ آپ فونز، کمپیوٹرز اور ٹیبلیٹس کے اسکرین ٹائم کو محدود کرسکتے ہیں مگر پھر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرنا دشوار مشکل ہے۔
مزید پڑھیے: والدین اور بچے روزانہ کتنا وقت ’بحث‘ کرنے میں گزار دیتے ہیں؟
آپ کا بچہ بہت ہوشیار ہے
آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آپ کا بچہ کانٹینٹ بلاکنگ کو بھی عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اکثر والدین کا دعوی ہوتا ہے کہ ان کے بچے محدود وقت ہی ڈیجیٹل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ لیکن بچے اب کئی ٹرکس اور چور دروازے جانتے ہیں جو وہ اکثر اپنے ہم عمروں سے سیکھتے ہیں، یوں وہ اپنے والدین کو آسانی سے چکما دے دیتے ہیں لہٰذا والدین کو بچوں کی ایسی ہوشیاری اور ہنرمندی کو لے کر محتاط رہنا چاہیے۔
ایک ساتھ وقت گزاریں
کمپیوٹر (یا ٹیبلیٹ یا اسمارٹ فونز) پر ایک ساتھ وقت گزاریں تاکہ آپ ثابت کرسکیں کہ یہ تنہائی میں کی جانے والی سرگرمی نہیں ہے۔ کوئی فلم ایک ساتھ دیکھیں۔ کسی تخلیقی پراجیکٹ پر ایک ساتھ کام کریں۔ کسی نئے باہمی مشغلے یا باہمی دلچسپی کے موضوعات (جیسے کسی ملک، کسی کھیل، کسی فن، کسی گیم، سپرہیرو، جانور یا کسی خاص موسیقی) کا انتخاب کریں اور پھر اس پر بچے کے ساتھ بیٹھ کر اکھٹا کام کریں۔ اس وقت کو مزیدار بنائیں اور اس دوران امتحانوں، کوئز یا ڈانٹ ڈپٹ کا استعمال نہ کریں۔ بہتر یہی ہے کہ بچے کو خود ہی موضوع تلاش کرنے دیں، مگر اس پر آخری فیصلہ آپ ہی کا ہو۔
یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں آپ کے بچے کے رویے میں جھگڑالو پن تو نہیں یا وہ اینگزائٹی کا شکار تو نہیں، کیونکہ کسی ویڈیو گیم کا مواد یا دیگر مواد ان پر مزید منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ مثلاً لوگ عام طور پر اینگزائٹی اور خوف و ہراس کا شکار اپنے ابتدائی بچپن میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی بچہ ایسے کسی مسئلے کا شکار ہو اور وہ اسکرین پر زیادہ وقت دہشت گرد کارروائیوں، تشدد، موت کے حوالے سے صدمے سے بھرپور اور ہولناک واقعات کے مناظر دیکھتا ہے تو اس کی حالت بد سے بدتر ہوسکتی ہے۔
سمجھانا ہی کافی نہیں
والدین کو لگتا ہے کہ ان کا بچے کو خطروں سے آگاہ کردینا اور زبانی سمجھانے سے ہی کام بن جائے گا۔ یقیناً، بچے کو ان تمام باتوں کو تفصیل سے سمجھائیں جن سے اسکرین کے سامنے وقت گزارنے سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ مگر والد یا والدہ کی جانب سے ان کے کنٹرول کی ضرورت کو صرف سمجھا دینا ہی عام طو پر بچوں کے رویے میں تبدیلی کا مؤثر طریقہ نہیں ہے۔
اپنے چھوٹے اور بلوغت کی عمر میں پہنچے والے بچوں کے اسکرین ٹائم پر نظر رکھیں
اس طرح آپ کا بچہ وہ روجہ اختیار کرنے سے باز رہے گا جس سے آپ اسے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر نظر رکھنے کا مطلب بچوں کے آس پاس منڈلانا نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے یہ ٹریک ریکارڈ رکھیں کہ آپ کا بچہ کس کے ساتھ بیٹھ کر کیا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کے ساتھ سرگرمیوں میں براہِ راست شامل ہوجائیں اس طرح بچے ناپسندیدہ رویے کو اختیار کرنے سے باز رہیں گے۔
رویے کا نمونہ پیش کریں
آپ اپنے بچے میں کس طرح رویہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ جس طرح رویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس کا نمونہ ان کے سامنے پیش کریں۔ کبھی کبھار خود والدین ہی اسکرین کے سامنے کچھ ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے جن سرگرمیوں سے وہ اپنے بچوں کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔ مثلاً بچوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں موجودگی کے باجود اپنی الگ اسکرین پر اجنبیوں کے ساتھ جھگڑالو پن والے گیمز کھیلنا، فحش وڈیوز دیکھنا، بھلے ہی والدین اپنی الگ اسکرین پر مصروف ہوں مگر بچوں کی نظریں والدین کی اسکرین پر پڑجاتی ہیں، لہٰذا ماڈلنگ یا اپنی شخصیت سے نمونہ پیش کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
مزید پڑھیے: اسکرینز پر گڑی ننھی آنکھیں
مختصراً کہیں تو ڈیجیٹل میڈیا نے والدین کے لیے نئی پریشانیاں اور خدشات پیدا کردیے ہیں۔ مگر والدین کئی طریقوں سے بچوں کو اس میڈیا کے استعمال کو مثبت انداز میں ایک فیملی سرگرمی کے طور پر لینے پر قائل کرسکتے ہیں اور نئی ٹیکنالوجیز کو زیادہ سے زیادہ علمی اور صحتمند سرگرمیوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں