• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

گلگت بلتستان: لڑکیوں کیلئے قائم متعدد اسکول نذر آتش

گلگت بلتستان میں شرپسندوں کی جانب سے نذر آتش کیے جانے والے اسکول — فوٹو: عمر باچا
گلگت بلتستان میں شرپسندوں کی جانب سے نذر آتش کیے جانے والے اسکول — فوٹو: عمر باچا

گلگت بلتسان کے علاقے چلاس میں نامعلوم شرپسندوں نے رات کے اندھیرے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم متعدد اسکولوں کو نذر آتش کردیا۔

مقامی افراد کے مطابق چلاس شہر میں قائم لڑکیوں کے اسکول رونئی اور تکیہ میں شرپسندوں نے مبینہ طور پر دھماکے بھی کئے۔

اس کے علاوہ تحصیل چلاس کے علاقے ہوڈر اور تھور میں قائم لڑکیوں کے اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا۔

دوسری جانب ضلع دیامر کی تحصیل داریل میں آرمی پبلک اسکول سمیت گیال گاؤں میں قائم لڑکیوں کے اسکول، تبوڑ میں لڑکیوں کے لیے قائم 2 اسکول اور کھنبری میں قائم ایک لڑکیوں کے اسکول کو بھی آگ لگائی گئی۔

مقامی افراد کے مطابق چلاس کے علاقے دیامر میں تحصیل تانگیر میں جنگلوٹ میں قائم آرمی پبلک اسکول سمیت گلی بالا اور گلی پائین میں قائم 2 لڑکیوں کے اسکولوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

چلاس میں شرپسندوں کی جانب سے نذر آتش کیے جانے والے اسکول — فوٹو: عمر باچا
چلاس میں شرپسندوں کی جانب سے نذر آتش کیے جانے والے اسکول — فوٹو: عمر باچا

مذکورہ تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم 9 اسکولوں کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا۔

لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد مقامی پولیس نے علاقے میں شرپسندوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) دیامر روئے اجمل کے مطابق مقامی افراد نے چلاس میں 12 اسکولوں کو نذر آتش کرنے کی اطلاع دی ہے، جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ علاقے میں متعدد مقامات پر موبائل نیٹ ورک نہیں ہے جس کی وجہ سے رابطے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

چلاس میں جلایا جانے والا اسکول— فوٹو: عمر باچا
چلاس میں جلایا جانے والا اسکول— فوٹو: عمر باچا

پولیس افسر نے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ شرپسند عناصر نے متعدد اسکولوں سے کتابیں باہر نکال کر پہلے انہیں نذر آتش کیا اور تاحال کسی نے بھی ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

بعد ازاں دیامر یوتھ موومنٹ نے اسکولوں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات کی مزمت کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

دیامر یوتھ کے زیر اہتمام گرلز اسکولوں کو جلانے کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین نے اسے اسکولوں پر نہیں دیامر کے مستقبل پر حملہ قرار دیا۔

مذکورہ واقعات پر خاتون سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر ماروی میمن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’یہ واقعات ناقابل برداشت ہیں کیونکہ سابقہ حکومت نے بڑی کوششوں کے بعد دیامر میں لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے تھے اور اب آنے والے حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے‘۔

واقعے پر سینیٹ کمیٹی کا نوٹس

بعد ازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے چلاس و دیامر میں لڑکیوں کی اسکولوں کے نذر آتش کیے جانے کے واقعے کا نوٹس لے لیا اور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ چلاس میں لڑکیوں کے اسکولوں کو جلانے کے واقعات انتہائی افسوس ناک و قابل مذمت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے جلانا دہشت گردی ہے اور ناقابل معافی جرم ہے جبکہ انہوں نے ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ مجرموں کو فوری گرفتار کرکے قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024