تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد
اسلام آباد: انتخابات 2018 کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے پر سامنے آنے والی تبدیلی نے 2 حریف جماعتوں کو ایک ہونے پر مجبور کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 2 بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمان میں جمہوریت بحالی الائنس (اے آر ڈی) کی طرز کی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اور دونوں جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مرکز میں حکومت بنانے پر ’مشترکہ حکمت عملی‘ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
اس حوالے سے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات میں وسیع بنیاد پر تعاون پر اتفاق کیا گیا۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نتائج کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ
قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے گھر ہونے والی اس ملاقات سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات دونوں جماعتوں کے تعلقات کے درمیان ’برف پگھلنے کے مترادف تھی‘۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے وفد میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، شیری رحمٰن، قمر الزمان قائرہ اور فرحت اللہ بابر شامل تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مشاہد حسین سید، ایاز صادق، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سردار مہتاب احمد خان موجود تھے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور دونوں جماعتوں کے درمیان اس بات پر مکمل اتفاق موجود ہے کہ ’25 جولائی کے انتخابات کو چوری کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کا یہی موقف تھا کہ وہ انتخابی نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہیں، تاہم پارلیمان کے اندر رہتے ہوئے عمران خان کی قیادت میں چلنے والی تحریک اںصاف کی حکومت کو ایک مشکل وقت دینے کے لیے ’ایک مربوط مشترکہ اپوزیشن کی حکمت عملی‘ اپنانی چاہیے۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے تجویز کردہ پارلیمان کے بائیکاٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا، تاہم پی پی پی کے وفد نے انہیں بتایا کہ ان کی جماعت بائیکاٹ کی حمایت میں نہیں۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وفد نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ اور ایم ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی اور انہیں اپنے پارلیمان کے بائیکاٹ کے فیصلے کو واپس لینے پر رضا مند کرنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے شیری رحمٰن سے ڈان کو بتایا کہ ہم نے مولانا فضل الرحمٰن پر زور دیا کہ وہ پارلیمان کا بائیکاٹ نہ کریں کیونکہ اس سے خلا پیدا ہوگا جو تحریک انصاف کو ایک واک اوور فراہم کرے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت جاری رہے گی اور امید ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی مزید ملاقاتیں ہوں گی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج کی روشنی میں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، تاہم پارٹی کی نشستوں کی تعداد اس چیز کو ظاہر کرتے ہے کہ آزاد حکومت بنانے کے لیے ان کے اراکین کی تعداد کم ہے۔
الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف 155 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے، تاہم سادہ اکثریت کے لیے 22 نشستیں اب بھی کم ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) 64 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی 43 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کامیاب امیدوار کے ووٹوں سے زیادہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی 12 نشستیں ہیں اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم کی مشترکہ نشستوں کی تعداد 117 ہوتی ہے جو تحریک اںصاف کی کل نشستوں سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمان میں حلف لینے کی تقریب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر لچک دکھائی ہے اور وہ اس فیصلے کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مولانا کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ پارلیمانی دفاتر کے لیے مشترکہ امیدوار کھڑے کریں اور مرکز میں تحریک اںصاف کو حکومت بنانے سے روکنے کے لیے کوشش کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں