این اے-60 الیکشن: شیخ رشید کی درخواست سپریم کورٹ سے بھی مسترد
سپریم کورٹ کے فل بینچ نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے این اے-60 میں انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی۔
سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شیخ رشید کی درخواست پر سماعت کی۔
این اے -60 سے قومی اسمبلی کے امیدوار شیخ رشید نے مؤقف اپنایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی کی سزا کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے انتحابات ملتوی کرنے کا فیصلہ آئین کے منافی ہے اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے۔
شیخ رشید کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے بینچ نے کہا کہ حلقے کے ووٹرز کو ان کے من پسند امیدوار کو ووٹ دینے سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اس لیے واک اوور کے بجائے اپنے لیے نہیں بلکہ ووٹرز کے حق کے لیے الیکشن لڑیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شیخ رشید دوسری نشست پر بھی انتحاب لڑ رہے ہیں لگ پتہ جائے گا، الیکشن کی اجازت دے دیتے ہیں تو پھر حنیف عباسی کو بھی الیکشن لڑنے دیتے ہیں۔
شیخ رشید کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی نااہلی کے باوجود ان کے حلقے میں الیکشن کروائے جارہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان کے حلقوں میں کورنگ امیدوار موجود تھے اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا کورنگ امیدوار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:این اے 60 پر انتخابات ملتوی کرنے کےخلاف شیخ رشید کی درخواست خارج
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ حلقے کے 40 فیصد عوام کو کیسے حق رائے دہی سے محروم رکھا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فل بینچ کا کہنا تھا کہ درخواست میں اہم نوعیت کے نکات شامل ہیں جن کی تشریح سماعت کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔
سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی الیکشن کرانے کی استدعا مسترد کر دی تاہم ان کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرزاق نے کہا کہ این اے 60 میں انتحاب روکنا درست نہیں الیکشن کمیشن کو اس طرح کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کو ایسے روکنا عوام کو ووٹ دینے سے روکنے کے مترادف ہے، دنیا کی تاریخ میں ایک مجرم کے لیے انتحابات ملتوی کرنے کی کوئی مثال نہیں.
یاد رہے کہ شیخ رشید نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی رجسٹری میں چیلنج کیا تھا جہاں جج نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کردی تھی۔